تحریر : محمد اسلم لودھی
سی آئی اے چیف لیون پینٹا کہتا ہے پاکستان کو جواب دینا ہوگا کہ وہ انٹیلی جنس کے حوالے سے نااہل تھا یا اسامہ کو چھپانے میں ملوث تھا۔ اسامہ امریکیوں کے ہاتھوں شہید ہوا ہے یا نہیں اس بات سے قطع نظر سوچنے کی یہ بات ہے کہ امریکہ کون ہوتا ہے ایک آزاد اور خود مختار ملک سے یہ پوچھنے والا ۔ پاکستانی حکمران اگر امریکہ کے غلام ہیں تو عوام ہرگز غلام نہیں ہیں بلکہ وہ انسانیت کش پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔پاکستانی حکمرانوں کا معذرت خواہانہ رویہ دیکھ کر امریکہ کے ساتھ ساتھ فرانس اور برطانیہ بھی پاکستان پر یلغار کرنے پر تلے بیٹھے ہیں بلکہ بھارت کے ائیر چیف مارشل پی وی نائیک کا بیان سب سے خطرناک ہے کہ بھارت بھی دہشت گردوں کے خلاف امریکہ کی طرح سرجیکل سٹرائیک کرسکتا ہے ۔اس لمحے جبکہ پاکستان کی نااہل قیادت اپنی احمقانہ بیان بازی کی بدولت دنیا میں تماشہ بن چکی ہے وہاں اس بات کو زبان پر لانے کیوں گریز کیا جارہا ہے کہ امریکہ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک میں بغیر کسی اجازت کے فوجی کاروائی کرے ۔ امریکہ نے بغیر اجازت فوجی مداخلت کرکے نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پر کاری ضرب لگائی ہے بلکہ عالمی قوانین کی بھی سریحا خلاف ورزی کا مرتکب ثابت ہوا ہے ۔
یہ الگ بات ہے کہ اسامہ ایبٹ آباد والی رہائش گاہ موجود تھا یا یہ بھی افغان جنگ کو پاکستان منتقل کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے کیونکہ اس سانحے کے چند دن پہلے ہی سی آئی اے کے سربراہ کے بارے میں امریکی اخبار یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب پاکستان کی سرزمین پر لڑی جائے گی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ پاکستان دوست ممالک چین سعودیہ ایران اور ترکی کو ساتھ ملا کر بین الاقوامی سطح پر امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا تا اور اقوام متحدہ سے پوچھتا کہ اس کاکونسا قانون امریکہ کو آزاد ملک میں جارحیت کی اجازت دیتا ہے ۔وہ انسانی حقوق کہاں ہیں جن کا آئے روز واویلا کیا جاتا رہا ہے ۔اس ضمن میں صدر پاکستان کا یہ بیان کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک نہیں پہنچ سکتی ایک مضحکہ خیز بیان لگتا ہے ۔اس سے پہلے بھی کہاجاتا تھا کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے اگر واقعی ایسا تھا تو ایبٹ آباد آنے والے ہیلی کاپٹروں کو بروقت روکا کیوں نہیں گیا کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ پاکستانی حکمرانوں اور دفاعی اداروں کو اس بات کاعلم ہی نہیں تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹر آئے کدھر سے اور گئے کدھر سے ہیں ۔دفاعی اعتبار سے اس نااہلی کے بعد کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام او راثاثے محفوظ ہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ بلکہ حقائق یہی بتاتے ہیںکہ امریکہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ ایک بار پھر کاروائی کرے گا اگر پہلی امریکی کاروائی کو بروقت روک لیا جاتا تو دوبارہ امریکہ کو دوبارہ ہمت نہ ہوتی لیکن اب مزید امریکی حملوں کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا ہی حملہ کرکے اسرائیل برادر اسلامی ملک عراق کا ایٹمی پروگرام اور تنصیبات تباہ کرچکا ہے ۔جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام نہ صرف امریکہ بلکہ بھارت اور اسرائیل کو پہلے ہی کھٹکتا آ رہا ہے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن سے صرف ایک دن قبل ایک امریکی اور تین برطانوی سفارت کہوٹہ کے انتہائی حساس علاقے میں تصویریں بناتے ہوئے پکڑے گئے ہیں لیکن سفارتی استثنا دے کر ریمنڈ ڈیوس کی طرح انہیں بھی چھوڑ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ سرزمین پاکستان پر ہر جرم کرنے کی امریکیوں کو کھلی چھٹی ہے ۔ایبٹ آباد آپریشنز کی خود ساختہ کامیابی کے بعد طالبان سربراہ ملا عمر اور القاعدہ کے لیڈر سرکردہ لیڈر ایمن الظواہری کی تلاش کے حوالے سے پاکستان پر دباﺅ میں حد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ پاکستان کے دفاعی ماہرین اپنی ناکامی پر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ آپریشنز سے پہلے پاکستان کا رایڈر سسٹم کو جام کردیاگیا تھا اگر خدانخواستہ امریکہ نے کہوٹہ پر بھی یلغار کردی تو اس وقت بھی یہی کہہ کر معاملے پر مٹی ڈال دی جائے گی کہ ہمارے تو ریڈار ہی جام تھے ہم کیا کرسکتے تھے ۔ کہنے کا مقصد تو یہ ہے کہ ایٹمی سائنس ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند سمیت پاکستان کے سائنس دان اتنے باصلاحیت ہیں کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو بنیاد بناتے ہوئے ایک ایسا خودکار ریڈار سسٹم تشکیل دیں جس کو امریکہ سمیت دنیا کی کوئی طاقت جام نہ کرسکے وگرنہ ان حالات میں ناقابل تسخیر دفاع کا لفظ محض خود کو دھوکہ دینے والی بات لگتی ہے ۔
بھارت امریکہ سے کھربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے کررہا ہے اگر اس نے امریکہ سے ریڈار سسٹم جام کرنے والا بھی نظام خرید لیا تو پاکستان اپنا وجود کس طرح برقرار رکھے گا یہ ایک اہم سوال ہے ۔ یہ مانا کہ پاکستان مسلمہ ایٹمی طاقت ہے لیکن یہ ملک اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک ریڈار سسٹم کو جام کرنے کا کوئی توڑ نکال نہیں لیا جاتا ۔امریکہ پاکستان کا کتنا دوست ہے موجودہ نام نہاد آپریشن اور بعد میں امریکیوں کے رویوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ بہتر ہوگا امریکی غلامی سے نجات حاصل کرتے ہوئے چین کے ساتھ مضبوط دفاعی معاہدے کئے جائیں جو ہمیشہ پاکستان کا بااعتماد اور وفادار دوست ثابت ہوا ہے ۔ اگر اب بھی عقل کے ناخن نہ لیے گئے اور معذرت خواہانہ رویہ جاری رہا تو امریکہ کو دھشت گردی کی جنگ پاکستان منتقل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا وہ ہنستے بستے پاکستانی شہروں پر میزائل برسانے سے بھی یہ کہتے ہوئے گریز نہیں کرے گا کہ انہی
شہروں میں ملاعمر ایمن الظواہری اور القاعدہ کے باقی ماندہ لوگ موجود ہیں ۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد نہ صرف تنہا غنڈہ بن چکاہے بلکہ جہاں چاہتا ہے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل شروع کردیتا ہے بطور خاص اسلامی ممالک ہی اس کے زیر عتاب رہے ہیں ۔پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی امریکی سازشوں کا مقابلہ اس لیے نہیں کرپا رہا کہ اس کے حکمران ہمیشہ امریکی کٹھ پتلیوں ہی رہی ہیں ۔جن کو امریکہ سے تحریری معاہدہ کرنے کے بعد برسراقتدار لایاجاتا ہے ۔
36 ہزار سیکورٹی اہلکاروں اور سویلین کی جانی و مالی قربانیاں اور 68 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانے کے باوجود اگر پاکستان کو امریکی ایما پر دنیا بھر میں رسوا ہونا ہے تو بہتر ہوگا کہ اس امریکی جنگ سے ہاتھ اٹھالیا جائے اور امریکیوں سے سرزمین پاکستان پر موجود تمام اڈے خالی کروا لیے جائیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کی یہ ناکامی ہے کہ اسے اسامہ کی ایبٹ آبادمیں موجودگی کا علم نہیں تھا امریکی جرنیلوں کی عقل پر کون ماتم کرے گا جو یہ اٹھتے بیٹھتے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے امریکہ زمین کی تہہ میں رینگنے والے کیڑے بھی دیکھ سکتا اور اب امریکہ کو مطلوب کوئی بھی شخص روئے کائنات میں کہیں بھی چھپ نہیں سکتا۔اگر ان ایبٹ آباد میں اسامہ دکھائی نہیں دیا تو آئی ایس آئی کی جانب سے اس بارے میں کوئی خدائی دعوی نہیں کیاگیا ۔بہرکیف اسامہ دس سال پہلے افغانستان میں مرا تھا ( اور اس کی نعش کو برف خانے میں منجمد کرکے محفوظ کر لیا گیا تھا ) یا حالیہ ایبٹ آباد آپریشن میں ۔ امریکہ کوکوئی حق نہیں پہنچتا کہ پاکستان یا پاک فوج سے وضاحت طلب کرے ۔ مرنے کے بعد ‘ اسامہ جہنم میں جاﺅ ” ¾ ” باسٹر مارا گیا ” امریکی اخباروں میں لکھ کر جس طرح اپنی بھڑاس نکالی گئی ہے اس سے امریکیوں کا وحشت ناک چہرہ مزید سامنے آگیا ہے ۔ اسامہ دہشت گرد تھا یا غیور مسلمانوں کا ہیرو ۔ وہ کیا تھا اور کیا کرتا رہا اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی ننگی تلوار تھا جس نے اپنی زندگی کو دنیا بھر میں مسلمہ امہ کے خلاف سازشوں کا کسی حد تک مقابلہ بھی کیا ۔ موت تو ہر انسان کو آنی ہے لیکن اسامہ کو نہ تو امریکی کبھی فراموش کرسکتے ہیں اور نہ ہی تاریخ کے عالم اس کے ذکر کے بغیر مکمل ہوگی ۔لیکن ان تمام واقعات و شواہدات کو دیکھتے ہوئے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان سے وضاحت طلب کرے ۔ اب بھی وقت ہے جام نہ ہونے والے ریڈار سسٹم کو بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرزمین کو امریکیوں سے خالی کروا لیا جائے۔ سپلائی اور لاجسٹک سپورٹ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام ہوائی اڈے بھی امریکیوں سے واپس لے کر انہیں پاکستان سے چلتا کردیا جائے جنہوںنے مشرف دور اور زلزلے اور سیلاب کے دوران مددگار بن کر سرزمین پاکستان میں آئے اور یہاں اپنا جاسوسی کانٹ ورک قائم کرلیا ۔میں سمجھتاہوں اگر ایسا نہ کیاگیا تو مستقبل میں پاکستان کی خود مختاری اور سا لمیت کو مستقبل میں شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔