۔۔ ۔احسا س سے عاری ۔۔۔
اس کرہِ ارض پر تمام قومیں اپنے اپنے مفادت کے دائرے میں سفر کر رہی ہیں لہذا وہ اپنے مفادات کی اسیر بھی ہیں اورا س کی متلاشی بھی۔ دوستی اور دشمنی کے سارے معیار ا نکے ملکی مفادات سے جنم لیتے ہیں۔ مفادا ت مشترک ہوں تو دوستی کی دیوی پینگیں بڑھا نے کا انتظام کر دیتی ہے۔ مفادات میں ٹکراﺅ کا عنصر غا لب آجا ئے تو دشمنی کے بیج خود بخود زمین سے پھوٹ پڑتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ کو ئی ریا ست اپنے مفا دات کو پسِ پشت ڈال کر دوسری ریا ست کے مفا دت کا تحفظ شروع کر دے۔ہر ریا ست اپنے مفادات کے پیشِ نظر اپنی پا لیسیاں تشکیل دیتی ہے یہ الگ با ت کہ کبھی کبھی حالات کی نزا کت کے پیشِ نظر مفادات پر سمجھو تہ بھی کیا جا تا ہے لیکن ایسے سمجھو توں سے ریا ست کی سالمیت اورا س کی آزادی پر کو ئی حرف نہیں آتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ سیاست میں مو قف کی مثال دا ئرے کے اندر اس مرکزی نقطے کی سی ہے جو چاروں جانب حرکت کی اجازت تو دیتا ہے لیکن نگا ہو ں سے کبھی بھی اوجھل نہیں ہو تا۔ بہترین خار جہ حکمتِ عملی اپنے مفادات کے اس مرکزی نقطے کو نظرو ں سے او جھل نہ ہو نے دینا ہے ۔
ریاست ہا ئے متحدہ امریکہ کی وزیرِ خارجہ مسز ہیلری کلنٹن چند ہفتے قبل ایک ایسے وقت میں پاکستان تشریف لا ئی تھیں جب پاکستان اور بھا رت ایک طویل وقفے کے بعد مذا کرات کی میز پر اکٹھے ہو ئے تھے اند ر و نِ خانہ خبر یہ ہے کہ دونو ں نیو کلئیر طا قتو ں کو مذا کرات کی میز پر اکٹھا کرنے والی قوت بھی امریکہ ہی کی تھی یہ الگ بات کہ مذا کرات میں سرد مہری کا رنگ غالب رہا لیکن یہ کیا کم ہے کہ مذا کرات کا آغاز ہو گیا جو کہ بہت خوش آ ئند با ت ہے ۔ مسز ہیلری کلٹن دنیا ئے سیا ست میں اپنا خاص مقام رکھتی انکی سب سے بڑی خوبی عوام سے انکی کمٹمنٹ ہے جسکا اظہار انکی پو ری سیا سی زندگی میں خو بصو رت رنگو ں کی مانند جا بجا جلو ہ افروز ا نظر آتا ہے۔ اپنے انہی مقا صد کے حصول کی خا طرا س نے پاکستان کی فلاح و بہبود کےلئے کر و ڑو ں ملین ڈا لر کی امداد کے خصو صی پیکج کا اعلان بھی کیا تھا اور پا کستا نی عوام کے دل جیتے کی کو شش بھی کی تھی ۔ امریکی کانگرس نے پچھلے سال سا ڑ ھے سات بلین ڈا لر کی امداد کا ایک بل بھی پاس کیا تھا دنیا جسے کیری لوگر بل کے نام سے جانتی ہے یہ وہی بل ہے جسے میڈیا نے اس زما نے میں خوب اچھا لا تھا اور اس پر بہت واویلا کیا تھا لیکن حکو متِ وقت ٹس سے مس نہ ہو ئی کیو نکہ اس بل میں محروم اور غریب عوام کی فلا ح و بہبو د کےلئے رقم مختصص کی گئی تھی لہذا پاکستان نے اس بل کو قبول کر لیا تھا تا کہ محروم طبقات کی بہتری کےلئے منصوبہ سازی کی جا سکے۔ اب اگر اس امداد کو پاکستانی ا سٹیبلشمنٹ، انتظامیہ اور بیو وکریسی شیرِ ِ مادر سمجھ کر ہضم کر جا ئے یا اپنے غیر ملکی بینک اکا ﺅ نٹس میں منتقل کر دے تو اسمیں امریکہ کی کیا خطاہے۔
حالیہ سیلابو ں نے پاکستان کی معیشت کو تبا ہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کروڑوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں ہزا روں موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور لا کھو ں لوگ اب بھی پا نی میں گرے ہو ئے ہیں اور زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔پاکستان کے دوستو ں کے لئے یہ لمحہ امتحان کا لمحہ ہے انھیں یہ ثا بت کرنا ہے کہ وہ پاکستان کی سا لمیت کو عزیر سمجھتے ہیں اور پاکستانی عوام سے دل سے محبت کرتے ہیں۔ موجو دہ قیامت خیز لمحو ں میں امریکہ اور اس کے اتحا دی ایک دفعہ پھر امدادی سر گرمیوں میں دوسرو ں پر سبقت لے گئے ہیں۔اسلامی دنیا پر ہنوز خا مو شی طاری ہے صرف یو اے ای اور سعو دیہ عرب نے امداد کا اعلان کیا ہے لیکن جنکی دوستی پر ہمیں ناز تھا ابھی تک گو مگو کی کیفیت میں ہیں انکی خا مشی شکوک کو ہوا دے رہی ہے۔ امریکی انتظا میہ نے جسطر ح پاکستانی عوام کی مدد کرنے کا و عدہ کیا ہے وہ متا ثرین کےلئے ا مید کی کرن ہے۔ہمارے ہا ں ایک عجیب رسم ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرا یا جاتا ہے کوئی بھی وا قعہ ہو جا ئے اسکی ساری ذمہ داری امریکہ پر ڈا ل دی جا تی ہے۔ مذہبی جما عتیں اس سوچ کو ہوا دینے میں پیش پیش ہو تی ہیں لیکن با عثِ حیرت ہے کہ پاکستان کے آڑے وقتو ں میں سب سے پہلے پہنچتا بھی امریکہ ہی ہے۔ ۵۰۰۲ کا زلزلہ ہو یا کو ئی دوسری سما وی آفت ہو امریکی امداد ہمیشہ پاکستان کو سہا را دینے کےلئے سب سے پہلے پہنچتی ہے ۔ سیلاب میں گرے ہو ئے لا کھوں لو گو ں کے مسا ئل کے لئے ہما رے پاس وا فر ذرا ئع نہیں ہیں لیکن مذہبی طبقہ اور حقا ئق سے نظر یں چرا نے والا گروہ اب بھی یہی کہے گا کہ ہمیں ا مر یکی امداد کی ضرو رت نہیں ہے۔ انکی اس غیر حقیقی فکر سے ہزار وں لوگ لقمہَ اجل بن جا ئینگے لا کھو ں خاندان تبا ہ و برباد ہو جا ئینکے لیکن وہ پھر بھی نفرت کا راگ الاپنے سے باز نہیں آئینگے۔سچ تو یہ ہے کہ حقائق سے نظریں چرا نے اور خوا بو ں میں زندہ رہنے کی یہی سوچ ہے جس نے پاکستان کو سب سے زیا دہ نقصان پہنچا یا ہے۔ مذہبی پیشوا ئیت تقدیرِ الہہی اور عذابِ خدا وندی کہہ کر ہمیں خوف زدہ کرتی رہےگی لیکن عمل کی وہ کدال جو اس دعرتی کے سینے کو پھاڑ کر چھپے خزا نو ں کا ہمیں وارث بنا سکتی ہے اس عمل کی جانب کبھی را ہنما ئی نہیں کرےگی یہ مذہب کے نام پر مقتل گا ہیں سجا کر پاک دھرتی کو سرخ رنگ کرتی رہےگی لیکن امن محبت اور دوستی کے وہ گیت کبھی نہیں گا ئیگی جو قو مو ں کی ترقی ا ور خوشخالی کی ضما نت ہوتے ہیں ۔ دنیا گلو بل ویلج ہے لہذا سیلابی لمحات میں اگر اقوامِ عالم ہمیں مصائب کے بھنور سے نکا لنے میں ہما ری ممد و معاون بنتی ہیں تو یہ ہمار ی جیت ہے مشکل کے ان لمحات میں اگر ہم تنہا رہ جاتے تو ہماری ہار ہو تی لیکن ایسا نہیں ہوا لیکن مذہبی قوتیں اور میڈیا ان لمحات میں عالمی امداد پر اپنے تحفظا ت کا اظہار کر کے حکومتی کو ششو ں کو نشانہ بنا کر ملکی وحدت کو پارہ پارہ کر رہی ہیں اور وہ ملک جو لا کھوں قربا نیو ں سے معرضِ وجود میں آیا تھا اسکی سالمیت داﺅ پر لگا رکھی ہے اور کا ر واں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا کے مصداق ہم ہر احساس سے عا ری ہو چکے ہیں۔
اگر ہمیں اقوامِ عالم میں مقامِ بلند پر فا ئز ہو نا ہے تو پھر تیشہِ فرہاد سے سنگلاخ چٹا نوں سے دودھ کی نہر بہا کر عشق کی شمشیرِ جہانگیر کا حا مل بننا ہو گاعدل و صداقت کی اقدار سے قومی وجود کی از سرِ نو تشکیل کرنی ہو گی اپنی روش میں تبدیلی لا نا ہو گی معا شرے کے مو جو دہ چلن کو درست کرنا ہو گا امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو کم کرنا ہو گا انصاف اور ذاتی جوا ہر کو ملتِ پاکستان کا نیا معیار بنانا ہو گا کیو نکہ قومی مزاج میں بنیا دی اصلاح کے بغیر ا تنے بڑے مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔پاکستان کا سرمایہ دار اور جا گیر دار طبقہ تو غریب کو سانس لینے کی مہلت بھی دینا نہیں چا ہتا وہ اس سے زندگی کی آخری سانسیں بھی چھین لینا چا ہتا ہے اسکے پاس اپنی تجو ریو ں کے منہ بھر نے کے علاوہ کو ئی دوسرا دھندہ نہیں ہے غریب کا خون چو سنا اور اپنی دو لت میں بے حدو حساب ا ضافہ کرتے چلے جانا اسکی زندگی کا مقصدِ اولین ہے اور اپنے اس مقصد کے حصول کی خا طر وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ہوس پرستی کی یہی لہر ہے جو اپنے ساتھ اقدار کی ساری دنیا بہا کر لئے جا رہی ہے اور ہم منہ کھو لے تما شہ دیکھ رہے ہیں لیکن اس لہر کو روکنے کیلئے کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھا رہے۔
حالیہ سیلا بو ں نے جا گیر داروں سرمایہ داروں اور صنعتکا روں کو جس بری طرح سے بر ہنہ کیا ہے شا ئد اس سے قبل وہ اس بری طرح سے کبھی ایکسپوز نہیں ہو ئے تھے دنیا سیلاب میں ڈوبی جا رہی ہے اور جاگیر دار اس مسئلے پر با ہم دست و گریبا ں ہیں کہ انکی زمینو ں کی جانب سیلاب کے پانی کا رخ کس نے موڑا تھا۔ غریب کی زندگی انکی نگاہ میں بے وقعت اور غیر اہم ہے۔ دولت کا حصول ہی اس طبقے کا مطمئعِ نظر ہے لہذا وہ اخلا قی اقدار کو روندتا ہو ا س جا نب بڑی تیز ی سے پیشقدمی کر رہا ہے جہاں اسکے لئے حصولِ دولت کے بہتر موا قع اسکے منتظر ہوں۔ جب دولت ا لہ بن جا ئے تو پھر نہ غیرت جا گتی ہے نہ حمیت با قی رہتی ہے اور نہ ہی نمودِ خودی کی لوریو ں کی صدا ئیں کہیں سے انسانی ضمیر کو جنجھو ڑتی ہیں دولت کی ہوس ہر قدر کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے پھر کرپشن ،استحصال، درند گی، سفا کیت اوربے حسی معاشرے کا نیا ضا بطہ قرار پا تا ہے
غیرت ہے بڑی چیز جہا نِ تگ و دو میں ۔۔۔ پہنا تی ہے درویش کو تاجِ سر ِ دارا
د نیا کو ہے پھر معرکہ ِ رو ح و بدن پیش ۔۔۔ تہذیب نے پھر اپنے درندو ں کو ابھا را ( ڈا کٹر علا مہ محمد اقبال)