ڈاکٹر خواجہ اکرام
بھوٹان کے شہر تھمپو میں کچھ ہی دن پہلے ہند وپاک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی اور ایک مثبت بیان سامنے آیا کہ برسوں سے معطل مذاکرات کا عمل ایک بار پھر سے شروع ہونے والا ہے ۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی دونوں جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس بار جب دنوں ممالک کے سیکریٹری وزرائے خارجہ اور ان کے وزراء آپس میںٕ ملیں گے تو ہر معاملے پر کھل کر بات کریں گے اور تمام تصفیہ طلب معاملات پر گفتگو ہوگی۔سوال یہ ہےکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہر بار مذاکرات کا عمل یہی کہہ کر شروع کیا گیا کہ تمام نزاعی معاملے پر گفتگو ہوگی اور دونوں ممالک کے رشتوں میں بہتری لانے کی تمام تر کوششیں کی جائیں گی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کوئی نتیجہ سامنے آنے سے پہلے ہی کوئی ایسا واقعہ ہوگیا کہ اس سمت میں بڑھائے گئے اب تک کے قدم پیچھے ہوگئے اور تما م محنت اور کوششوں پر پانی پھر گیا۔حالانکہ جب بھی مذکارت ہوئے ہیں ہمیشہ ایسا ہی لگا ہیے کہ اس بار کوئی نہ کوئی نتیجہ نکل کر سامنے آئے گا۔ مگر اب تک تاریخ نے ہمیشہ مایوس ہی کیا ہے ۔لیکن کہا جاتا ہے کہ امید ہی زندگی ہے اور اسی امید پر دنیا قائم ہے ۔اس لیے اس بار بھی تھمپو میں دئے وزرائے خارجہ کے بیانات سے امید جاگی ہے اور دنوں جانب کے عوام آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی ایسی صورت نکل کر سامنے آئے جس سے دونوں جانب خوشحالی آئے اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کی اس دہائی میں جب تمام خطے میں کوئی نہ کوئی انقلاب آرہا ہے اور بڑی حیرت انگیز طور پر تبدیلیاں رونام ہورہی ہیں تو ہند و پاک کے حق میں بہتر یہی ہے کہ دونوں ممالک تمام غیر ضروری معاملات کو پس پشت ڈال کر کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ لیں ، ورنہ کہیں دیر نہ ہوجائے کیونکہ دنیا نے اب تبدیلی کے نئے گُر سیکھ لیے ہیں ، دنیا نے اتنی تیزی سے تیونس کی حکومت کی تبدیلی کو دیکھا اور اب مصر کے انقلاب کو دیکھ رہی ہے ۔ عوام نے اب اپنی طاقت کو سمجھ لیا ہے ۔ یہ طاقت وہ طاقت ہے جو لوگوں کو اپنی ضمیر سے قوت ملتی ہے۔اس لیے اس معاملے کو بھی جتنا جلد ہو نپٹانے کی کوشش کرنی ضروری ہے۔ ان مذاکرات میں جس دن سیاست کو دور رکھا جائے گا یہ معمالہ اسی دن حل ہوجائے گا۔لیکن اسے شومئی قسمت ہی کہیں گے کہ آج تک ان معاملات میں وقتی اور سیاسی مفاد کو ہی ترجیح دی گئی ہے۔اور ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب جب بات آگے بڑھی ہے کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آگیا ہے ۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب دونوں ممالک کو دنیا نے ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کر لیا تو خود دونوں ممالک کو اس کی فکر ہوئی کہ اب ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خطے کے امن کو بحال کریں ۔ لہٰذا نواز شریف کے دور میں مذاکرات شروع ہوئے اور اس پہلے کہ کسی نتیجہ خیز معاملے تک پہنچتے کارگل کی جنگ شروع ہو گی اور جب یہ تعطل بھی ختم ہوا تو پاکستان میں نواز شریف کی جمہوری حکومت کو گرا کر پرویز مشرف ایک بار پھر پاکستان میں فوجی آمر بن کر ابھرے ۔ ابھی پرویز مشرف نے سیاسی داؤ پیچ کو سمجھنا ہی شروع کیا تھا کہ امریکہ پر نائن الیون کا حملہ ہوگیا جس نے پوری دنیا کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا ۔ لیکن پاکستان کو اس واقعے نے زیادہ ہی متاثر کیا ۔اب امریکی عمل دخل پاکستان پر اس لیے بھی زیادہ ہو گیا کہ پاکستان ایک جانب دہشت گردی مخالف جنگ میں صف اول میں کھڑا تھا تو دوسری جانب اس کی مجبوریاں بھی تھیں جس نے اس سمت میں قدم بڑھانے سے روکا۔اس کےعلاوہ ہندستانی جہاز کا اغوا ہونا اور حافظ سعید کو رہاکرانا اور پھر سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ یہ سب ایسے واقعات تھے جنھوں نے ہند وپاک کے ما بین مذاکرات کے عمل کو متاثر کیاہے۔
جنرل مشرف نے اپنی جانب سے پہل کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ایسا انقلابی قدم اٹھایا جائے گا کہ مسائل ختم ہوجائیں گے مگر ان کے آگرہ مذاکرات سے بھی کچھ نہیں نکل کر سامنے آیا اور وہ روٹھ کر پاکستان چلے گئے ، اس کے کچھ ہی دن بعد ہندستانی پارلیمان پر حملہ ہوا جس نے اس مذاکرے کو ایک بار پھر سے روک دیا ۔ اس کے بعد یہ آگ پھر سرد ہوئی اور بات چیت کے دروازےکھلے مگر زیادہ دن نہیں گزرے کہ ممبئی پر حملہ ہوا اس کے بعد سے مذاکرات کے دروازے بند تھے ۔ اب تھمپو میں یہ طے گیا کہ جلد ہی پاکستان کے وزیر خارجہ محمود قریشی جلد ہی ہندستان آئیں گے اور بات چیت کو مزید رفتا ر ملے گی ۔ لیکن ابھی یہ دعوت اور مدعو کرنے کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ محمود قریشی اب پاکستان کے وزیر خارجہ ہی نہیں رہے ۔ ابھی جمعہ کو نئے کابینہ کے ارکان میں یہ شامل نہیں ہوئے ۔ ان کے ہٹائے جانے کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ ہے۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے جمعہ کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اہم ملاقات کی جس میں انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان تبدیل کرنے پر احتجاجاً وفاقی کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیا ہے ۔ حکومتی ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی نے یہ ملاقات نئی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب سے قبل وزیراعظم ہائوس میں کی جس میں انہوں نے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ذرائع نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے بطور وزیر خارجہ ان کا قلمدان تبدیل کئے جانے کی وجوہات بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے دریافت کیں جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا ہے جسے وہ تسلیم کر رہے ہیں ۔۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے شاہ محمودقریشی کو وزارت خارجہ کی بجائے دیگر وزارتوں کے قلمدان سونپنے کی تجاویز پیش کیں جس پر شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم سے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کرنے سے معذرت کرلی ۔خیر یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔ وزیر کوئی بھی ہو بات چیت ہوسکتی ہے ۔ لیکن اب نئے وزیر کو نئے سرے سے تمام معاملات کی جانکاری لینی ہوگی ۔ اس لیے اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے اس تبدیلی سے کچھ سست رفتاری تو آہی جائے گی۔
رہی بات اب نئے سرے سے مذاکرات کی تو اس بار دونوٕ ں ممالک کو یہ ضررو ذہن نشیں رکھنا ہو گا کہ دنیا کے حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور اس بدلتی دنیا میں پڑوسی ہی ایک دوسرے کے کام آسکتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہےکہ پچھلے ہفتے بھوٹان کے شہر تھمپو میں پاکستان اور ہندستان کے سیکریٹری خارجہ کی ملاقات ہوئی تھی جس میں تمام معاملات پر بات چیت کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کشمیر، انسدادِ دہشت گردی، ممبئی حملوں کی تحقیقات، سیکیورٹی، معاشی معاملات سمیت تمام متنازع مسائل پر مذاکرات کریں گے۔ بیان کے مطابق وزیرِ خارجہ پاکستان کے ہندستان دورے کی حتمی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ادھر وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پاکستان اور ہندستان کے درمیان پھر سے مذاکرات شروع ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا۔دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کی جانب سے بالکل یکساں پریس ریلیز جاری کیے جانے کے سے یہ اندازہ تو لگایا ہی جاسکتا ہے کہ اس بار شاید معاملہ مختلف ہو۔
ہندستان کی سیکریٹری وزرات خارجہ نے کہا جکہ حکومت ہندکی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی اور سیاسی عزم بھی تھا کہ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ کیونکہ ہمارا ہمشیہ سے یہ موقف رہا ہے کہ بات چیت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں نئی شدت پیدا کرنا چاہتے ہیں، دونوں ملکوں نے بات چیت کو کچھ زیادہ ہی لمبے عرصے تک تعطل کا شکار رکھا ہے، میرے خیال میں یہ بہت حقیقت پسندانہ فیصلہ ہے، بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ نروپما راؤ نے یہ بھی کہا کہ ’دہشتگردی کے مسئلے پر ہمیں بہت تشویش ہے۔ پاکستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی سے ہندوستان کو نقصان پہنچا ہے، ہم بات چیت میں دہشت گردی سمیت ان مسائل کو حل کرانے کی کوشش کریں گے جن پر ہمیں تشویش ہے اور ہم نے اپنی بات چیت میں اس مسئلے کو توجہ کا محور رکھا ہے۔اس کے ساتھ یہ مشترکہ طور پر یہ کہا گیا کہ ہندستان اور پاکستان ان تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کریں گے جو دونوں ملکوں کے لیے اہم ہیں۔ہمیں اس موقع کو برباد نہیں کرنا چاہیے، اور یہ بات پاکستان پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہم سخت محنت کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان کا بیان واقعی حقائق پر مبنی ہے ۔ مذاکرات کے ان نشیب و فراز کے مد نظر اور موجودہ بیانات کے پس منظر میں یہ بھی ضروری ہے کہ عوامی سطح پر تحریک چلائی جائے اور دونوں ملکوں کے رہنماؤں پر دباؤ ڈالا جائےتو شاید اور بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
***