قائد اعظم والا پاکستان چاہیے
چند روزپہلے ایک قریبی عزیز ماسٹر محمد سراج مرحوم جس نے دیانت و شرافت اور تعلیم کے میدان میں بڑا نام کمایا کی نمازِ جنازہ میں شرکت کیلئے آبائی گاؤں جوز جو بٹگرام شہر سے کم و بیش ایک گھنٹے کی مسافت پر شمال میں واقع ہے جانے کا اتفاق ہوا، ماسٹر سراج کے بچھڑ جانے سے علاقے کی پوری فضا سوگوار ہر آنکھ نم اور چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا کہ مرحوم کسی ایک خاندان کا نہیں بلکہ پورے علاقے والوں کا چشم و چراغ تھا اور یقیناً ایسا ہی تھا، بہر حال سال بعد گاؤں کا رخ کرنا میرے لیے کسی تعجب سے ہر گز کم نہ تھا نہ گاڑیوں کا شور و غوغا اور نہ ہی حکمرانوں کے کیے جانے والے کرتوتوں کا کوئی علم، گاؤں کی زندگی عجیب ضرور ہے مگر پر سکون، شہری زندگی سے تو صحت مند انسان بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے، شہر میں تو گاڑیوں کا شور اور بم دھماکوں و خود کش حملوں کا خوف ہر وقت ذہن پر سوار رہتا ہے جو انسان کو دیمک کی طرح چاٹتا اور کاٹتا رہتا ہے جبکہ گاؤں کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں بلکہ جیو اور جینے دو کا ایک لا زوال عمل گاؤں کی زندگی میں جاری و ساری ہے اللہ کرے کہ یہ عمل ہمیشہ اسی طر ح جا ری و ساری رہے ، گاؤں میں گزرے ایام میں میری ملاقات اس ریٹائرد سیاسی بابے سے بھی ہوئی جن کی باتیں اکثر لوگوں کو بری لگتی ہیں اور اسی وجہ سے شاید بابے نے اب زیادہ بولنا بھی چھور دیا ہے میں نے بابا جی کی جو باتیں سماعت کی اس نے مجھے بے حد متاثر کیا، بابا جی کی باتیں تلخ ضرور ہیں مگر حقیقت کے عین مطابق اور یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم تلخ حقائق کو ماننے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو بابا جی کی باتوں سے ہمیشہ اختلاف رہتا ہے، بابا جی کو اس ملک کے حکمرانوں سے سب سے زیادہ گلہ ہے وہ حکمرانوں کو ہی تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ان کے سامنے موجودہ یا سابق حکمرانوں میں سے کسی کا نام لیا جائے تو وہ غصے سے لال پیلا ہوکر آپے سے باہر آ جاتے ہیں بابا جی کا کہنا ہے کہ اس پیارے ملک پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے بزرگ و اسلاف نے قائد اعظم کی قیادت میں بے پناہ قربانیاں دیں، مسلمانوں نے اس ملک کے حصول کیلئے اپنا سب کچھ اڑایا، اس ملک ہی کی خاطر بوڑھوں کے بڑھاپے ویران اور قوم کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوئیں، معصوم بچوں کو ذبح اور بزرگوں کو زندہ جلایا گیا، مطلب اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے قربانی کی وہ عظیم تاریخ رقم کی جسکی تاریخ میں مثال بھی نا ممکن ہے، لاکھوں مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں آگ و خون کا دریا عبور کر کے پاکستان حاصل کیا اور ہمیں ایک آزاد پاکستان دیا، جس میں نہ تو خود کش حملے، بم دھماکے تھے اور نہ ہی مہنگائی ، غربت اور بےروزگاری کا سیلاب تھا مگر انہی حکمرانوں نے اپنی سیاہ کرتوتوں اور ترقی کے نام پر اس ملک کا ایسا حشر کیا کہ آج ملک کی اس حالت کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے بابا جی یہ کہتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کی آنکھوں سے موتیوں کی طرح آنسو گرنے لگے بابا جی نے مزید کہا بیٹا پچھلے 62 سالوں میں ایوب خان اور یحییٰ خان سے لیکر پرویز مشرف اور موجودہ زرداری تک ان سب حکمرانوں نے اس بد قسمت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے نعرے لگا کر غریب عوام پر حکمرانی کی لیکن تم مجھے بتاﺅ ان 62 سالوں میں اس ملک نے کیا ترقی کی کیا خود کش حملے و بم دھماکے ترقی کی علامت ہیں۔۔۔؟ کیا مہنگائی غربت اور بےروزگاری ترقی کا نام ہے۔۔۔؟کیا امریکی ڈالروں کے لیے غیروں کے سائے تلے زندگی گزارنا بھی ترقی ہے۔۔۔؟ اور کیا ملک میں کرپشن کا فروغ اور این آر او پیداوار بھی ترقی کا نتیجہ ہے۔۔۔؟ بابا جی نے کہا کہ میرا نہیں یقین کہ ان 62 سالوں میں ہم نے کوئی ترقی کی ہو خود کش حملے۔۔۔ بم دھماکے۔۔۔ڈرون حملے جس ملک میں روز روز کا معمول بن گئے ہوں مہنگائی آخری حدوں کو چھو رہی ہو ملک کا کوئی ذرہ دہشتگردوں چوروں اور ڈاکوؤں سے محفوظ نہ ہو باہر بھی چور اور اقتدار میں بھی چور ہوں اور غریب لوگ روٹی کے ایک ایک نوالے کیلئے تڑپ رہے ہوں اور روز گار کا یہ حال ہو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں ایسے ملک کو آپ تباہی کا نام تو دے سکتے ہیں مگر ترقی کا نہیں، آپ مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایوب خان اور یحییٰ خان سے لیکر پرویز مشرف اور زرداری تک ان سب حکمرانوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا،کیا ترقی ایسی ہوتی ہے کہ ملک کے 17 کروڑ عوام غربت اور بھوک و افلاس سے مرے اگر تمہارے ہاں ترقی کا معیار یہی ہے اور تم خود کش حملوں، بم دھماکوں اور لوٹ مار کرپشن ، مہنگائی اور غربت و بےروزگاری کو ترقی کہتے ہو تو خدارا تم ترقی کا یہ شوق کہیں اور پورا کر لو مگر اس ملک کو مزید تباہ و برباد نہ کرو، ہمیں وہی قائد اعظم والا پاکستان چاہیے جسے تم اور پرویز مشرف پسماندگی سے تعبیر کرتے ہو ہمیں اگر وہ پاکستان دوبارہ مل جائے تو پھر ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے، بابا جی کی یہ باتیں سن کر میں تو اس وقت خاموش ہو گیا لیکن آج جب میں بابا جی سے کوسوں دور گاڑیوں کے وہی شور شرابے اور خود کش حملوں و بم دھماکوں کے خوف تلے شہر میں ایک بار پھر پہنچ چکا ہوں مجھے بابا جی کی باتیں بڑی شدت سے یاد آ رہی ہیں میں شہر کے چوکوں اور چوراہوں اور یوٹیلیٹی سٹورز کے باہر لمبی لائنوں میں معصوم بچوں ،ضعیف خواتین اور بزرگ شہریوں کو چینی کی تلاش میں سرگرداں دوڑتے اور گ