امریکی جنگ سے چھٹکارا….وقت کا اہم تقاضا

(عثمان حسن زئی)
uhasanzai@yahoo.com
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس سے امریکی سفیر کیمرون منٹر نے خطاب کیا، جو نہایت قابل مذمت ہے۔ انہوں نے پاکستان کے حکومتی واقتصادی معاملات میں امریکا کی مداخلت کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ آخر ہم پاکستان کو سب سے زیادہ امداد بھی تو فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان پر غالب اور مسلط ہوتے نظر آتے ہیں، اس لے کہ ہمیں اس ملک کی فکر ہے اور ہم اس کے سب سے بڑے عطیہ دہندہ ہیں۔ ہماری امداد براہ راست تعاون کے لیے ہوتی ہے اور اس کے بدلے ہم پاکستان سے کچھ مطالبات کرتے ہیں تو اس میں برا کیا ہے؟ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان سے حسب عادت دہشت گردی کے خاتمے اور مبینہ بین الاقوامی دہشت گردوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کامطالبہ بھی کیا۔
یوں تو پاکستان میں امریکا کی مداخلت کسی ثبوت کی محتاج نہیں، تاہم امریکی سفیر نے سر عام ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اعتراف کرکے اہل وطن کو حیرت زدہ ضرور کردیا ہے۔ امریکا پاکستان کو امداد ضرور دیتا ہے لیکن وہ اپنے مفادات کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہے۔ اس کی بھی ہم نے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے اور کررہے ہے۔ اس کے باوجود شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے پاکستانی حکام پر دباؤ اور ڈومور کے امریکی مطالبات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا سب کچھ داو پر لگانے کے باوجود امریکی ہماری لازوال قربانیاں تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ امریکا کی لائی ہوئی دہشت گردی سے وطن عزیز میں بدامنی اور لاقانونیت کا بازار گرم ہے؟ آج ہر شخص خوف وہراس کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے۔ ملک میں لاقانونیت کی شرح روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکی اتحادی بننے ہی کے صلے میں ہم داخلی اور خارجی سطح پر عدم استحکام کا شکار ہوئے؟
امن وامان کسی بھی معاشرے کی ترقی مے بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اس کی افادیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علےہ السلام کی دعاکا ذکر کیا ہے، جس میں انہوں نے سب سے پہلے جو چیز مانگی وہ امن ہے کہ ”اے میرے پروردگار! اس شہر (مکہ) کو امن والا بنا دے۔“ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امن کسی معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے کتنا ضروری ہے۔ جس معاشرے میں امن وامان ناپید ہوجائے، اس کی ترقی کا عمل رک جاتا ہے اور وہ زوال کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے، لوگ خوف ودہشت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آج ہم بھی اسی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ امن وامان نہ ہونے کے باعث آج پاکستان سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال لینے میں عافیت سمجھتے ہیں، لوگوں کے کے معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں، عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول اور جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ کاروانِ زندگی چلانے کے لیے ہم غیروں کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔ تشویش ناک ملکی حالات سے ہمیں کتنا نقصان ہوا، اس کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی سے ملک بھر میں سیاحت کے شعبے کو 550 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ وادی سوات جو کبھی ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھی، جسے دیکھنے دوردراز کے علاقوں سے لوگ چلے آتے تھے، آج اس حسین وادی کی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی ہے کہ سیاح اس کا نام ہی لینے سے کتراتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کی کشیدگی کے دوران سوات میں صرف ہوٹل انڈسٹری کے ساڑھے سات ارب روپے ڈوب گئے۔ 885ہوٹل اور ریسٹورنٹ متاثر ہوگئے، جس کے باعث 40 ہزار سے زائد افراد سڑکوں پر آگئے ہیں۔
نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ میں پاکستان کو 50 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، جبکہ امریکا (جو امداد دینے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے) سے اب تک ملنے والی امداد 10 ارب ڈالر سے کچھ ہی زیادہ ہے، جسے اصل نقصان کے مقابلے میں مونگ پھلی کے چند دانوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے اور جانی نقصان جس کی کسی صورت تلافی ممکن نہیں، اس پر مستزاد ہے۔ آپ امریکیوں کے ”ڈومور“ کے تناظر میں اس جنگ میں پاکستان اور امریکا کے دیگر اتحادی افواج کی قربانیوں کا موازنہ کریں۔ نائن الیون کے واقعے سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی قربانیاں اتحادیوں سے زیادہ ہیں۔ نائن الیون سے اب تک پاکستانی فوج کے 2273 سے زائد فوجی افسران وجوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف نیٹو اور افغانستان میں موجود امریکا سمیت 42 ممالک کی افواج کی محض 1600 کے قریب ہلاکتیں ہوئیں، جوکہ پاکستانی فوج کی قربانیوں سے بہت کم ہیں۔ اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی وجہ 2002ءسے 2010ءتک پاکستان میں 32276 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ قومی میڈیا اوردیگر اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق ان برسوں کے دوران پاکستان میں 288 خودکش حملوں میں 4126 افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 2004ءسے 2010ءتک 209ڈرون حملوں سے دو ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے اور 2010ءمےں سب سے زیادہ 113 ڈرون حملے ہوئے، جس میں 935 ہلاکتےں ہوئےں۔
آپ غور کریں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شرکت سے ہمیں کیا ملا؟ پاکستان کے لاکھوں باشندوں کو اپنا گھربار چھوڑکر ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ غیرملکی سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ نکال کر واپسی کی راہ لی۔ ملکی معیشت مفلوج ہوکر رہ گئی۔ 2009ءمےں اہل وطن کو ساڑھے گیارہ ہزار، جبکہ سال رفتہ میں سات ہزار سے زائد جنازوں کو کندھا دینا پڑا۔
اس پس منظر میں امریکا کو بخوبی معلوم ہونا چاہیے کہ افغانستان پر اس کے قبضے سے قبل پاکستان اور افغانستان میں کتنی دہشت گردی تھی اور آج یہاں کا کیا حال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحادی افواج اپنے افغان اور غیرملکی ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں حالات خراب کررہے ہیں، چناں چہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے بڑی تعداد میں غیرملکی ایجنٹ گرفتار کیے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کے لیے ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکیوں کو دوٹوک بتادیا جائے کہ ہم آپ کا بوجھ مزید اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے حکمرانوں کو سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کی بجائے ایسی پالیسیاں متعارف کرانی ہوں گی، جن سے عوام کو تحفظ کا احساس ہو۔ ہمیں ”وارآن ٹیرر“ میں اپنی شمولیت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہوگا کہ اگر یہ جنگ ہمارے قومی مفاد میں ہے تو وہ مفادات کیا ہیں اور آیا وہ ہمیں حاصل بھی ہو رہے ہیں؟ اگر نہیں ہورہے تو کیوں؟ اور اگر حاصل ہونے کی کوئی توقع ہے تو آخر کب تک؟ پاکستان کے لیے اب وقت انتہائی نازک ہے کہ مزید غلط فیصلے ہمارے لیے زہرقاتل ہوں گے۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے اگر درست فیصلے بروقت نہ کیے جائیں تو وقت خود تلوار سونت کر کھڑا ہوجاتا اور اپنا فیصلہ صادر کردےتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment