آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست کے بعد دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے پاکستانی ٹیم میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں اور ممکنہ طور پر فاسٹ باؤلر محمد عباس کی ٹیم میں واپسی ہو گی۔
برسبین میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں بدترین ناکامی سے دوچار ہوئیں اور آسٹریلیا نے میچ میں یکطرفہ مقابلے کے بعد اننگز اور 5 رنز سے شکست دے دی تھی۔
پہلی اننگز میں اسد شفیق اور دوسری اننگز میں بابر اعظم اور محمد رضوان کی عمدہ بیٹنگ کے باوجود پاکستان کی بیٹنگ آسٹریلین باؤلنگ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان سیریز کا دوسرا ٹیسٹ میچ جمعہ سے ایڈیلیڈ میں کھیلا جائے گا جس کے لیے ٹیم میں متعدد تبدیلیوں کا امکان ہے۔
تاہم ٹیم مینجمنٹ کے لیے سب سے بڑا لمحہ فکریہ باؤلنگ لائن کی کارکردگی ہے جو بالکل بے ضرر نظر آئی اور آسٹریلیا نے 580 رنز کا پہاڑ اسکور بورڈ کی زینت بنایا جس میں ڈیوڈ وارنر اور مارنس لبوشین کی سنچری اور جو برنز کی 97 رنز کی اننگز بھی شامل تھی۔
پہلے ٹیسٹ میچ سے فاسٹ باؤلر محمد عباس کو ڈراپ کرنے کے حیران کن اقدام پر ٹیم مینجمنٹ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسی وجہ سے دوسرے ٹیسٹ میچ میں ان کی فائنل الیون میں شمولیت یقینی ہے۔
سیریز کے پہلے میچ کی دونوں اننگز میں ناکامی سے دوچار ہونے والے مڈل آرڈر بلے باز حارث سہیل کو دوسرے میچ سے ڈراپ کیے جانے کا امکان ہے اور ان کی جگہ ٹیم میں امام الحق کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
اگر حارث سہیل کو ایڈیلیڈ ٹیسٹ کی فائنل الیون سے ڈراپ کیا جاتا ہے تو کپتان اظہر علی تیسرے نمبر پر بیٹنگ کریں گے اور شان مسعود کے ساتھ امام الحق کو اننگز کے آغاز کا موقع دیا جائے گا۔
ادھر ماہرین کرکٹ اور سابق کرکٹرز کے پُرزور اصرار اور بابر اعظم کی فارم کو دیکھتے ہوئے نوجوان بلے باز کو ایک درجہ ترقی دے کر چوتھے نمبر پر کھلایا جا سکتا ہے اور اس صورت میں اسد شفیق پانچویں نمبر پر بیٹنگ کریں گے۔
ادھر باؤلنگ لائن میں محمد عباس کی شمولیت یقینی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ٹیم مینجمنٹ نوجوان نسیم شاہ کی جگہ اگلا میچ محمد موسیٰ کو کھلانے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔
پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران نسیم شاہ کو کمر کی تکلیف کی شکایت ہوئی تھی جس کے سبب وہ میدان سے باہر چلے گئے تھے اور اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیم مینجمنٹ انہیں احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ نوجوان فاسٹ باؤلر کو کسی بڑی انجری سے بچایا جا سکے۔