تحریر: شاہد محمود گھمن
ٹی بی ایک نہایت ہی خوفناک متعدی مرض ہے جو مائیکو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسس نامی جرثومے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جراثیم جسم کے کسی بھی حصے پر کسی بھی عضو پر حملہ آور ہو سکتے ہیں لیکن پھیپھڑے زیادہ تر اسکا نشانہ بنتے ہیں۔تپ دق کو ٹی بی،سل اور دق بھی کہتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا کوئی بھی ملک اس بیماری سے محفوظ نہیں ہے اور یہ دنیا میں موت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ پاکستان میں تقریبا 3لاکھ سے زائد افراد ہر سال ٹی بی میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ غربت اور مرض کے بارے میں لاعلمی اور علاج سے لاپروائی ہے۔ پاکستان میں اس مرض سے تقریبا 30000 افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جو شخص علاج نہیں کرواتا وہ زیادہ سے زیادہ دو سے تین سال زندہ رہ سکتا ہے۔ مگر انتہائی کرب میں اور اسی دوران وہ شخص 15 سے 20افراد کو ٹی بی کا مریض بنا دیتا
گذشتہ روزایک غیر سرکاری تنظیم مرسی کور کے زیر اہتمام ٹی بی اور اس کے علاج سے آگاہی کا ایک سیمینار ہوا جس میں ٹی بی کے مرض،علامات،پھیلاﺅ اور علاج کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کیا گیا ۔اس سیمینار میں کالمسٹ فورم گوجرانوالہ کو مدعو کیا گیاتا کہ کالم نگاروں کے ذریعے اس موذی مرض کے بارے میں لوگو ں کو اچھی طرح آگاہ کیا جا سکے ۔کیونکہ یہ مرض اب لا علاج نہیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب اس کے بارے میں مکمل آگاہی ہوگی اور لوگ علاج کی طرف راغب ہوں گے۔مرسی کور کے کمیونٹی موبلائزر جاوید اقبال اور مس عطیہ روفس سارے پروگرام کو ہینڈل کر رہے تھے ۔ مس عطیہ روفس نے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ چوبیس مارچ کو پوری دنیا میں تپ دق ٹی بی کا عالمی دن منایا جائے گا ۔جس کا مقصد نہ صرف اس مرض سے بچا ﺅسے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے بلکہ اس مرض میں مبتلا افراد کو علاج کی جانب مائل کرنا ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں بسنے والے غریب عوام بیماری سے متعلق آگاہی کی کمی اور علاج کے اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی سالانہ 20 لاکھ سے زائد افراد تپ دق کے مرض سے ہلاک ہو رہے ہیں اور مرض سے ہلاک ہونے والے نصف افراد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔مس عطیہ روفس نے کالم نگاروں کو مزید بتا یا کہ صرف ضلع گوجرانوالہ میں10ہزارسالانہ نئے کیسز سامنے آرہے ہیں دنیا میں سالانہ 90 لاکھ جبکہ ملک میں 3 لاکھ افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ عالمی دن کے حوالے سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر تیسرے فرد میں ٹی بی کا جرثومہ موجود ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق عالمی سطح پر تپ دق سے متاثرہ خطوں میں جنوب مشرقی ایشیا کا خطہ 33 فیصد نئے مریضوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ 21 فیصد کے ساتھ افریقہ دوسرے اور 22 فیصد کے ساتھ مغربی بحرالکاہل کا خطہ تیسرے نمبر پر ہے۔ ٹی بی کنٹرول پروگرام کے مطابق عالمی سطح پر پاکستان تپ دق کے مریضوں کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر ہے اور ملک میں سالانہ 63 ہزار افراد ٹی بی کے مرض سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہرسال تپ دق کے 4 لاکھ 10 ہزار نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں اور 2050 تک ملک سے ٹی بی کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، 2 لاکھ 70 ہزار مریض اس وقت بھی موجود ہیں۔پاکستان میں ٹی بی کے 75 فیصد مریضوں کی عمر 15 سے 49 برس کے درمیان ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق گلوبل پلان ٹو اسٹاپ ٹی بی (2006-2015) کیلئے 56 بلین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے اب تک WHO کے ہدف کو حاصل کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، کمپوڈیا، انڈونیشیا، فلپائن، شام اور میانمر شامل ہیں۔ملک میں 60 فیصد مریض جنرل پریکٹیشنر کے پاس جاتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں کا رخ نہیں کرتے جس سے مریضوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے انہوں نے کہا کہ تنگ گھروں اور گنجان شہری علاقوں میں ٹی بی کا مرض سانس کے ذریعے سے عام لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور بے احتیاطی کے باعث یہ مرض شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ٹی بی کے ایک مریض سے 10 سے 15 افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ مس عطیہ روفس نے بتایا کہ ٹی بی کے مرض کا 8 سے 12 ماہ کا مکمل علاج کرانے سے یہ مرض ختم ہو جاتا ہے ملک میں ٹی بی کے مریضوں کا 80 فیصد 15 سے 49 سال کی عمر ہیں۔ مس عطیہ روفس نے مزید بتایا کہایک مریض دوسروں کو کس طرح محفوظ رکھ سکتا ہے جب مریض کھانسے یا چھینکے تو منہ کو کپڑے سے ڈھانپ لے،علاج کے پہلے دو سے چار ہفتے بچوں سے دور رہے،چند ہفتے کام یا پڑھائی کے لیے نا جائیں،کمرے کو ہوادار رکھیں،کمرے میں روشنی کا مناسب انتظام ہو،اپنے بچوں کو پیدائش کے پہلے ہفتے میں بی سی جی کا ٹیکہ لگوائیںاورادویات کا کورس مکمل کریں۔ مس عطیہ روفس نے کالم نگاروں کے مختلف سوالات کے جوابا ت دیتے ہوئے کہا کہ ٹی بی کا مریض جب علاج شروع کرتا ہے تو ادویات کے استعمال کے 15دن بعد مریض کے کھانسنے،چھینکنے اور تھوکنے سے مرض نہیں پھیلتا اور ضروی ہے کہ علاج مکمل کیا جائے، جبکہ ٹی بی کی مریض ماں اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے اس سے بچوں میں مرض نہیں پھیلتا لیکن سب سے ضروری ہے کہ ٹی بی کا فوری علاج شروع کیا جائے اور یہ علاج مکمل طور پر پورے ملک میں فری ہے۔
24 مارچ؛ ٹی بی کا عالمی دن
زمرے کے بغیر