اسلحہ فروخت کرنے کے خلاف قرارداد ویٹو کردی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے سے متعلق کانگریس کی منظور شدہ قرارداد کو ویٹو (مسترد) کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق قرارداد ویٹو ہونے کے بعد واشنگٹن اپنے اتحادیوں بشمول ریاض اور ابوظہبی کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرسکے گا۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کو طیاروں، گولہ بارود، دیگر ہتھیار اور آلات فروخت کرنے کے خواہش مند تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے رواں برس مئی میں ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری کے لیے کانگریس کی رائے لیے بغیر غیر معمولی اقدام اٹھایا تھا جس کا مقصد یمن جنگ میں مصروف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا ہتھیاروں کی فروخت تھا۔
انہوں نے ایران کو مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے ’بنیادی خطرہ’ قرار دیتے ہوئے اس کی سب سے بڑی وجہ بتائی تھی۔
اس حوالے سے ناقدین کا کہنا تھا کہ ہتھیاروں کی فروخت یمن میں تباہ کن جنگ کو مزید بھڑکا دے گی جہاں سعودی عرب، امریکا کے حمایت یافتہ اتحاد کے ساتھ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ کی قیادت کررہا ہے۔
سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ انتظامیہ، ایران کی جانب سے پیدا کی گئی ایمرجنسی کا ردعمل دے رہی ہے۔
تاہم ریپبلکن اراکین کی اکثریت پر مشتمل امریکی سینیٹ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو 8 ارب 10 کروڑ ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کی مخالفت کردی تھی۔
امریکی صدر کی جانب سے اعلان کردہ ہتھیاروں کی فروخت روکنے کے لیے پیش کی گئیں 3 قراردادوں کی حمایت کے لیے 7 ریپبلکن اراکین نے ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا جنہیں منظور کر لیا گیا تھا۔
امریکی ایوان نمائندگان میں کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین الیوٹ اینگل نے کہا تھا کہ ’جب ہم دیکھتے ہیں کہ یمن میں کیا ہورہا ہے تو امریکا کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ کوئی اقدام اٹھائے‘۔
ڈیموکریٹ پارٹی نے کہا تھا کہ حوثیوں کی جانب سے دھمکیاں حقیقی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف تشدد اور شہریوں کو قتل کرنے کی صورت میں دوسرا راستہ دیکھیں۔
ری پبلکن جماعت کے کچھ سینیٹ اراکین سمیت قانون سازوں نے کہا تھا کہ کانگریس کو دھوکا دینے کی کوئی قانونی وجوہات نہیں تھیں کیونکہ کانگریس کے پاس ہتھیاروں کی فروخت مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔
وائٹ ہاؤس نے زور دیا تھا کہ اگر ہتھیاروں کی فروخت رک جائے گی تو یہ تاثر جائے گا کہ امریکا مشکل وقت میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا، جبکہ خلیج میں جاری کشیدگی کی وجہ سے اس وقت انہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
قرارداد کی حتمی منظوری کا اختیار امریکی صدر کے پاس ہوتا ہے، تاہم انہوں نے ان قرارداد کو ویٹو کردیا۔
جو ہتھیار امریکا سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو فروخت کرے گا ان میں گولہ بارود سمیت طیاروں کی مرمت کے لیے مدد بھی شامل ہے۔