نابیناؤں کی امید مشینی آنکھ

نابینا ؤں کی امید مشینی آنکھ

سائنس و ٹیکنالوجی

ماہرین کے مطابق مشینی آنکھ یا ’بائیونک آئی‘ مورؤثی بیماریوں کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوجانے والے لوگوں کے لیے ایک بڑی امید بن سکتی ہے۔ طبی ماہرین کی ایک ٹیم نے لندن کے مورفیلڈ آئی ہسپتال میں اس طریقے پر کلینیکل تجربے کے طور پر پہلی مرتبہ ایک مریض کا علاج کیا۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والی ایک فرم نے یہ مصنوعی آنکھ بنائی ہے جو کہ ایک چشمے سے منسلک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس طریقہ سے بنیادی بینائی بحال کی جا سکتی ہے لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ ابھی بہت ابتدائی دور میں ہے۔ تجربات کا مقصد ان لوگوں کا علاج کرنا ہے جو قوت بینائی سے ’پگمنٹوسہ ریٹنیٹس‘ یا آنکھوں میں سوزش کی وجہ سے محروم ہو جاتے جو کہ موروثی بیماریوں میں سے ایک ہے اور یہ پردہ چشم کو متاثر کرتی ہے۔
یہ بیماری اپنے عروج تک پہنچنے میں کئی سال لگاتی ہے اور عام طور پر اس کی تشخیص کم عمری میں ہی ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں بیس سے پچیس ہزار افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ قطعی طور پر یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ پچاس سال سے زیادہ عمر کے اُن دو مریضوں کو جن کا اس طریقہ سے علاج کیا گیا ہے کسی حد تک فائدہ ہوگا لیکن ڈاکٹر اس بارے میں بہت پر امید ہیں۔ آنکھوں کے سرجن لیڈن دا کروز کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج زبردست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں مریضوں کا آپریشن کرکے اُ ن کی آنکھوں میں یہ مشین لگا دی گئی ہے اور وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔
اس بائیونک آئی یا مشینی آنکھ جس کا نام ’ آرگس ٹو‘ ہے ایک کیمرے کے ذریعے کام کرتی ہے۔ یہ کیمرہ بنا کسی تار کے سگنل ایک بہت ہی نازک ایکٹرونک ریسور اور ایکٹروڈ یینل کو بھیجتا ہے جو کہ آنکھ کے اندر لگایا جاتا ہے اور اسے پردہ چشم سے منسلک کر دیا جاتا ہے

حال
زمرے کے بغیر
Comments (0)
Add Comment