عبد الجلیل منشی ۔ کویت
ریمنڈ ڈیوس کیس امریکا کی ضداور امریکی انتظامیہ کی اناکا مسئلہ ، حکومت پاکستان کے لئے پاک ۔امریکی تعلقات کے تسلسل میںایک کڑی آزمائش اور پاکستانی قوم کے لئے وقار اور یکجہتی کا سوال بن کر سامنے آیا ہے۷۲ جنوری ۱۱۰۲ ءکو لاہور میں دو پاکستانیوں کواپنی بغیر لائسنس کی پستول سے گولیا ں برسا کر جانبحق کرنے والا یہ امریکی آج ۶۳ روز گزرنے کے بعد بھی ایک مسئلہ لا ینحل بنا ہوا ہےان چھتیس دنوں میں امریکہ نے مختلف انداز میں حکومت پاکستان پر الگ الگ انداز میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی، کبھی نرمی سے، کبھی دھمکا کر،کبھی سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا حوالے دیکر تو کبھی اقتصادی امداد روک کر پاکستانی معیشت کواور پاکستانی عوام کو مشکلات سے دوچار کرنے کی بات کر کے
اس معاملے کو شروع ہوئے اب کافی دن بیت چکے ہیں اور ہمارے تحقیقاتی اداروںنے نہایت باریک بینی اور غیرجانبدارانہ تفتیش کرتے ہوئے اور ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرکے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس قطعا ایک سفارتکار نہیں ہے اور نہ ہی اسکی سفری دستاویز درست ہیں ، وہ جعلی دستاویز کے ساتھ غلط نام سے ویزہ لے کر پاکستان آیا ہے، بدنام زمانہ امریکی سی آئی اے کا ملازم اور ایجنٹ ہے اور اپنے آقاوں کے فرمان کی بجاآوری کرتے ہوئے پاکستان میں سی آئی اے کا نیٹ ورک چلا رہا تھا
امریکہ انسانی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا علمبردارہونے کا دعویدار ہے۔ انسانی حقوق کے احترام اور خلاف ورزیوںکے حوالے سے مختلف اقوام عالم کو بہترین اور بدترین درجہ بندیوں میں تقسیم کرنے کا خودساختہ ٹھیکہ امریکہ مہاراج کے پاس ہے اور دنیا بھر کے حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے وہ بزعم خودخدائی فوجدار بنا بیٹھا ہے مگر جہاں امریکا یا امریکی قوم کا مفا د سامنے آتا ہے تو وہ سارے اصول،انسانی حقوق کی پاسداریاں اور بین الاقوامی قواعد وقوانین کو اسطرح فراموش کر بیٹھتا ہے جیسے انکا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہواور پھر اپنی ناجائز اور بے سروپا باتوںکو منوانے کے لئے وہ متعلقہ حکومتوں اور اقوام پرنہ صرف ناجائز دباو ڈالتا ہے بلکہ انکی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اخلاقی اور سیاسی بلیک میلنگ کا نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتا
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں خود امریکا بھی جانتا ہے کہ اسکے موقف میں کوئی جان نہیں ہے اور وہ شخص سفارتکا ر نہیں ہے بلکہ امریکاکا جاسوس ہے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں نے متعلقہ حکومتی اداروں کے توسط سے واشنگٹن کو اس بات کے ثبوت بھی فراہم کردئے ہیںمگر ڈھٹائی کی انتہاءدیکھئے کہ صاحب بہادر نے ان تمام ثبوتوں کو نہ صرف رد کردیا ہے بلکہ مسلسل ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ ریمنڈ کو سفارتکار تسلیم کرتے ہوئے اسے رہا کیا جائے اور امریکی سفارتخانے کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ موصوف کو کسی چارٹرڈ فلائٹ کے زریعے پہلی فرصت میں امریکہ پہنچانے کا اپنا قومی فریضہ ادا کرسکیںجسطرح ایک رپورٹ کے مطابق وہ ڈرائیور جس نے امریکی قونصلیٹ کی گاڑی سے پاکستانی شہری عباد الرحمان کوکچل کر ہلاک کردیا تھا اور لاہور کے امریکی قونصلیٹ کا وہ افسر جو اس وقت اس کار میں موجو د تھا وہ دونوں ۸۱ فروری کو بعافیت امریکہ پہنچ چکے ہیںجبکہ ہمارے اعلی پولس افسران سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مصداق امریکی قونصلیٹ کے افسران سے انکی حوالگی کیلئے ملاقاتیں کرتے رہ گئے
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ حکومت انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ریمنڈ ڈیوس کے جرائم کے بارے میں ناقابلِ تردید ثبوتوں کی فراہمی کے باوجودوہ امریکہ کے سامنے معذرت خواہانہ انداز اپنائے ہوئے ہے اور اب یہ بات اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ وہ کہیں سے اور کسی طور سفارتکار نہیں ہے بلکہ ابظاہر یک پرائیوٹ سیکیوریٹی کونٹریکٹر ہے اور یہ حقیقت سامنے آنے کے بعدیہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستانی حکومت کیوں امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے یہ باور نہیں کراتی کہ ریمنڈ ڈیوس ایک ایسا سفاک قاتل ہے جسے سفارتی استثناءحاصل نہیںہے
اسکے برعکس ہماری حکومت امریکی انتظامیہ سے مسلسل نظریں چرا رہی ہے اور ٹھوس اور واضح جواب دینے کی بجائے سارا ملبہ عدلیہ پر ڈال دیا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے جو فیصلہ عدالت کریگی وہی درست ہوگا اور اگر عدالت ریمنڈ کے خلاف فیصلہ دیدیتی ہے تو حکومت یہ کہتے ہوئے اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کریگی کہ ہم پاکستان کی آزاد عدلیہ کے فیصلے کو رد نہیں کر سکتے اگر ایسا ہو بھی گیا تب بھی سار ا کریڈٹ عدلیہ کو جائےگا اورڈیوس کے معاملے میں حکومت کے کمزور موقف کے باعث اسکی مقبولیت کاگراف کافی نیچے جانے اور اسکے سیاسی مخالفین کو سیاسی برتری حاصل ہونے کے امکانات خاصے روشن ہیں
ایک بات اور بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں امریکہ اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہے اور اسکی فوری اور غیر مشروط رہائی کے لئے صدر اوباما بذات خود کیوں اتنے بےچین و بے تاب نظر آتے ہیں اسکے علاوہ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اسکی گرفتاری کے پہلے ہی دن سے پاکستان میں امریکی سفارتکار اور واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ کے اہلکار اسکی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسکی فوری رہائی کے لئے حکومت پاکستان پر دباو ڈال رہے ہیں اور یہ دباو ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل بڑھ رہا ہے
اسی سلسلے میں کانگریس میں پاکستان کے دوست اور خیر خواہ سینیٹر جان کیری کوبھی فورا اسلام آباد بھیجا گیا تاکہ وہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے حق میںاپنی کی جانے والی کاروائیوں کا احسان جتا کراورحکومت اورپاکستانی عوام پر سیاسی اور اخلاقی دباو ڈال کر ریمنڈ کو سفارتی استثناءدلا تے ہوئے اپنے ساتھ واپس لےجائیںاس وقت حالات کچھ ایسی ہی سمت اشارہ دے رہے تھے کہ حکومت مختلف حیلوں کے زریعے جان کیری کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ریمنڈ کو استثناءدلا دے گی،مگر میڈیا کا مثبت کردا ر،شدید عوامی دباو اور عظیم اور محب وطن اور قومی غیرت اور حمیت سے مالامال سابق وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کا اٹل موقف حکومت کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنا اور جان کیری پریس کانفرنس کے دوران اپنے احسانات جتا کر اور دبی دبی زبان میں پاکستان اور خصوصا اہل پاکستان کو اقتصادی امداد کے روک لئے جانے کی دھمکی دے کر ناکام و نامراد اور تہی دست و داماں واشنگٹن لوٹ گئے
ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اور پاکستانی انٹیلی جنس اور سیکیوریٹی اداروں کی تحقیقات کی روشنی میں یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جو کچھ نظر آتا ہے یا جس کردار میں اسے امریکہ اور اسکا اسلام آباد میں قائم سفارتخانہ پیش کر رہا ہے وہ اس کردار سے کہیں بالاترشہہ ہے اور سی آئی اے کی نمائیدگی کرتے ہوئے پاکسان میں کوئی بہت ہی خطرناک اور گھناونا کھیل کھیل رہا تھا اور امریکہ کو یہی خطرہ ہے کہ اس کے تعلق سے اب تک جو کچھ سامنے نہیں آیا اگر وہ منکشف ہو جاتا ہے تودنیا میں اسکے گرتی ہوئی ساکھ کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہو اور غیر ممالک میں اسکے سفارتی مشن بڑی مشکل میں آسکتے ہیں
اس وقت چونکہ ڈیوس کے استثناءکا مقدمہ پاکستانی عدالتوں میں چل رہا ہے اورالحمد للہ چونکہ عدالتیں ریاستی تسلط اور دباو سے مکمل آزاد ہیں اس وجہ سے اہل پاکستان اس بات کی قوی امید رکھتے ہیں کہ تمام کاروائی انتہائی شفاف طریقے سے ہوگی اور ہماری اعلی عدالتیں اس سلسلے میں کسی بھی قسم کابیرونی یا حکومتی دباو قبول نہیں کریں گی
امریکہ ایک طرف ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں مسلسل ویانا کنونشن کا حوالہ دے رہا ہے کہ اس کی فلاں شق کے بموجب سفارتی عملے کو استثناءحاصل ہے مگر دوسری جانب وہ خود ہی سفارتی اصولوں اور سفارتکاری کے آداب کی دھجیاں انتہائی ڈھٹائی سے اڑا رہا ہےویانا کنونشن نے جہاں سفارتکاروں کو مختلف معاملات میں خصوصی استثناءدیا ہے تو وہیں سفارتی معیاربھی وضع کیا ہےجب کوئی شخص کسی ملک میں سفیر کے طور پر متعین ہوتا ہے تو اسکی حکومت کیجانب سے میزبان ملک کے حکمران کے نام ایک تعارفی اور تعیناتی خط شامل ہوتا ہے جس کی رو سے سفیر اپنے ملک کی نمائندگی کرتا ہے اور اسی طرح اسکے پاس میزبان ملک کا ڈپلومیٹک ویزہ ہوتا ہےجبکہ دیگر سفارتی عملے کے پاس بھی میزبان ملک کے سفارتخانے کا جاری کردہ سفارتی ویزہ ہوتا ہے اور سفارتخانہ اپنے سفارتی عملے کی ایک باقاعدہ متصدقہ لسٹ میزبان حکومت کی وزارت خارجہ کو جاری کرتا ہے مگر ڈیوس کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہے، نہ ہی اسکا ویزہ ڈپلومیٹک ہے نہ ہی امریکی سفارتخانہ یا قونصلیٹ سے پاکستانی وزارت خارجہ کو ایسی کوئی لسٹ فراہم کی گئی ہے جس میںڈیوس کو سفارتی عملے کا ایک فرد ظاہر کیا گیا ہو
ایک طرف تو امریکہ ایک غیر سفارتی شخص کو زبردستی سفارتی اہلکار ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اسکے لئے ہر قسم کے غیر اخلاقی حربے استعمال کر رہا ہے تو دوسری جانب اسی امریکا نے ماضی میں تمام سفارتی اصولوں اور ویاناکنونشن کی تمام شقوں اور ضوابط کو ببانگ دہل پامال کیا اور اس پر اسے نہ کوئی شرمندگی ہے نہ ہی ڈیوس کیس کے سلسلے میں ویانا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے اسے شرم آتی ہے
ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو ہمیں ایک انتہائی شریف النفس اور سادہ سی شخصیت ملا عبدالسلام ضعیف کی شکل میں نظر آئے گی جو اس وقت اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر تھے اور جنہیں ویانا کنونشن اور اقوام متحدہ کے جانب سے جاری شدہ ایک سند کی رو سے مکمل سفارتی استثناءاور تحفظ حاصل تھا امریکہ کی ایماءپر پاکستانی سیکیوریٹی اداروں نے انہیں انکی سرکاری رہائش گاہ سے دو جنوری ۲۰۰۲ ءکو آدھی رات کو بغیر کسی وارنٹ اور سبب کے گرفتار کرکے پشاور ایرپورٹ پر امریکی کمانڈوز کے حوالے کردیا جہاں سے پہلے انہیں افغانستان اور پھر وہاں سے گوانٹاناموبے کی بدنام جیل پہنچا دیا گیااس دوران امریکی حکام نے تمام تر سفارتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان کے سند یافتہ سفیر پر مظالم کی انتہاءکردی اور اس کمزور اور ناتواں شخص پرایسے انسانیت سوز مظالم ڈھائے جسکی مثال متمدن دنیا کی سفارتی تاریخ میں نہیں ملتیکیااس وقت امریکہ کے ڈھنڈورچیوں کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ ملا ضیعف ایک سفیر ہے اور ویانا کنونشن کے مطابق وہ اس سلوک کا حقدار نہیں ہے جو اس کے ساتھ روا رکھا جا رہا تھا
ویانا کنونشن کا راگ الاپنے والے امریکا بہادر کو اسکا اصلی چہرہ دکھانے کے لئے نیویورک میں پاکستانی قونصل خانے کے سابق قونصلر اسسٹنٹ جناب محمد یونس قریشی نے گزشتہ دنوں روزنامہ امت سے بات کرتے ہوئے جو انکشافات کئے ہیں اگر امریکی حکام انہیں پڑھ لیں اور اسکے بعد ان میں اگر تھوڑی سی بھی، غیرت، انسانیت اور حمییت کی رمق موجود ہے تو وہ یقینا ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں اپنے غیر
اصولی موقف سے نہ صر ف کنارہ کشی اختیار کرلیں گا بلکہ ہماری عدالتوں کو درخواست کریں گے کہ وہ اس شخص پر پاکستانی قانون کے مطابق مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے اسے قرارِ واقعی سزا دیں کاش ایسا ہوسکے جسکی خواہش تو کی جاسکتی ہے مگرجسکا عملی مظاہرہ دیکھنا شاید ہماری کئی نسلوں کوبھی نصیب نہ ہوسکے کیوںکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی ایک بے بس اور کمزوبیٹی عافیہ صدیقی کو اسکے ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر ۶۸ سال کی سزا دینے میں کسی قسم کی شرم و خجالت محسوس نہیں کرتے انکی عدالتوں کا فیصلہ ہی اتنا شرم ناک ہے کہ پوری امریکی عوام کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے اس پر کسی قسم کی جاسوسی کا الزام نہیں لگا یا گیا نہ ہی اسپر دھشت گردی کے سلسلے میں کوئی چارج لگایا گیا بلکہ امریکی فوجی افسران کو قتل کرنے کی کوشش کا ایک ایسا الزام ہے جس کے انکے پاس کوئی واضح ثبوت تک نہیں ہیں
بات ہو رہی تھی جناب یونس قریشی صاحب کی جو امریکی وزارت خارجہ کے ریکارڈ پر پاکستان کے ایک تسلیم شدہ سفارتکار تھے جنہیں ویانا کنونشن کے مطابق مکمل سفارتی استثناءحاصل تھا اور جو ایک بے داغ اور اعلی اخلاق کے حامل افسر کی حیثیت سے وہاں ۷۸۹۱ ءسے اپنی سفارتی ذمے داریا ں باحسن طریقے سے انجام دے رہے تھے کہ اچانک ۷۲ اکتوبر ۵۰۰۲ ءکی ایک شام قونصلیٹ سے ڈیوٹی ختم کرکے گھر جاتے ہوئے امریکی ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے انکی گاڑی کو روکا اور ےہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ایک سفارتکار ہیں انہوں نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قریشی صاحب کو سرِ عام ہتھکڑی لگا کر ایف بی آئی کے ہیڈ آفس پہنچادیا
ازاں بعد ایف بی آئی کے اہلکار ان سے ملے اور انہیں اس امر پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سفارتخانے میں ایف بی آئی کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کریں جسکے عوض انہیں ایک شاندار زندگی اور امریکی شہریت کی پیشکش کی گئی جسے اس محب وطن شخص نے بغیر کسی تردد کے ٹھکرا دیا ۲۳ روز کی اس جبری حراست کے دوران پاکستانی سفارتخانہ اور قونصل خانے کے افسران نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے رابطہ قائم کیا اور انہیں قریشی صاحب کے سفارتی استثناءسے آگاہ کرتے ہوئے انکی فوری رہائی کا مطالبہ کیا اورانکی گرفتاری کے اسباب جاننا چاہے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستانی سفارتی حکام کو کچھ بتانے سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ انکا کیس ایف بی آئی کے پاس ہے وہ ان سے تحقیق کر رہی ہے اور ایف بی آئی حکام کسی بھی اتھاریٹی کو جواب دینے کے مجاز نہیں ہیں
قریشی صاحب کو ۲۳ دن تک مختلف طریقوں سے ایف بی آئی کے لئے کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کیجاتی رہی مگر انکے پایہ استقلال اور جذبہ حب الوطنی میں کسی قسم کی جنبش نہ پاکر انہیں اس شرط پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیاکہ باہر جاکر وہ ایف بی آئی کے خلاف کسی بھی قسم کی عدالتی کاروائی نہیں کریں گے اس دوران بقو ل انکے سفارتخانے کے عملے کا منفی رویہ بھی انکے لئے سخت اذیت اورذہنی صدمے کا باعث بنا جس کی بناءپر انہوں نے ایف بی آئی کے حکام سے انکے خلاف کسی بھی قسم کی عدالتی کاروائی نہ کرنے کاتحریری وعدہ کیا اور اسطرح ویانا کنونشن کی الٹی راگنی سنانے والی امریکی سرکار نے اس ساٹھ سالہ باکردار سفارتکار کوایک ہائی پروفائل قیدی کی طرح اسطرح رہا کیا کہ اسکے دو ایجنٹ انہیں اسلام آباد تک چھوڑنے کے لئے اس ڈر سے آئے کہ باہر جاکر کہیں وہ انکے خلاف کوئی مسئلہ پیدا نہ کر دیں
واپس آنے کے بعد انہوں نے خاموشی کا لبادہ اس لئے اوڑھ لیا کہ صدائے احتجاج بلند کرنے کی کوئی بھی کوشش انکے اور انکے اہل خانہ کے لئے مسائل پیدا کرسکتی تھیریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو سفارتی استثناءدلانے کے سلسلے میں امریکا کی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے انکے چند مخلص اور محب وطن دوستوں نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ملک اور قوم کے بہترین مفادات میںا پنی خاموشی کوتوڑیں اور دنیا کے سامنے امریکی منافقت کا پردہ چاک کریںاور دنیا کو بتائیں کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والاصدر اوباما بذات خود ایک ایسے امریکی شہری کے لئے سفارتی استثناءکی بات کر رہا ہے جس نے دو پاکستانی شہریوں کو انکے وطن میں نہایت بے دردی سے گولیاں مار کر ہلاک کردیا اور خود امریکہ کا یہ دوغلہ کردار ہے کہ اس نے ایک پاکستانی تسلیم شدہ سفارتکار کو ۲۳ روز تک بغیر کسی جرم کے حراست میں رکھا اور ویانا کنونشن سے متعلق تمام اصول و ضوابط فراموش کردئے
اب معاملہ پاکستانی عدالتوں میں ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اعلی عدالتوں سے ریمنڈ ڈیوس کے جرائم کے خلاف جو آخری فیصلہ آتا ہے اس پر حکومت کا کیا موقف سامنے آتا ہے اورآنےوالے اس فیصلے کی پاسداری میں ہمارے ارباب اقتدار امریکہ بادشاہ کا سامنا کس طرح کرتے ہیں آیا متوقع امریکی ردعمل کے سامنے جھک جاتے ہیں یا ملک و قوم کی عذت و ناموس اور سربلندی کے لئے وہ امریکہ کے سامنے پاکستانی قوم کے ساتھ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیواربنکر ڈٹ جاتے ہیں
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ ریمنڈ کیس کے سلسلے میں اپنے متزلزل او ر کمزورموقف کے باوجودپاکستانی حکومت پر دباو ڈال کر اپنا اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہےایسے میں اگر حکومت قوم کی امنگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کے سامنے ڈٹ جائے تو امریکہ کو بھی پاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑینگےکیونکہ یہ دینا کا دستور ہے کہ جب کوئی طاقتور کسی کمزور پر جور و ستم ڈھاتا ہے اور وہ اسکا ظلم برداشت کرتا رہتاہے تو ظالم کو اس سے شہ ملتی ہے اور وہ کمزور کو کمزور تر کرتا چلا جاتا ہے مگر جب کمزور ظلم سہتے سہتے تنگ آجاتا ہے اور ہر چہ بادا باد کہہ کر ظالم کے سامنے ڈٹ جاتا ہے تو ظلم کرنے والے کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں پھر یا تو وہ اپنے ظلم سے باز آجاتا ہے یا پھر مظلوم کے ساتھ مفاہمت کرلیتا ہے۔ اسی طرح آخر کار امریکہ کو پاکستان کے ساتھ مساوات کے اصولوں پر مبنی ایک مفاہمانہ پالیسی اپنانا ہوگی کیونکہ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ نہ ہی افغانستان میں اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی امریکی اور ناٹو افواج کا افغانستان کی سنگلاخ سرزمین سے با عزت انخلاءممکن ہےاور امریکہ ایک ریمونڈ ڈیوس کے لئے خطے میں اپنے وسیع تر مفادات کو ہر گز د او پرلگانے کی پوزیشن میںنہیں ہے
ڈیوس کے کیس کے سامنے آنے اور میڈیا اور عوامی دباو کی وجہ سے پاکستانی سیکیوریٹی ایجنسیاں اور آئی ایس آئی میدان عمل میں آچکی ہیں اور اسکے نتیجے میں ڈپلومیٹک کور میں موجودکچھ اور سی آئی اے کے ایجنٹ منظر عام پر آچکے ہیں اور مزید بھی ایجنسیوں کی نظروں میں ہیںسی آئی اے کو پاکستان میں اپنے کئی آپریشن ختم کرنے پڑے جو وہ حکومت پاکستان اور اسکی سرکاری ایجنسیوں سے چھپ کر ملک کے مختلف حصوں میں جاری رکھے ہوئے تھی سی آئی اے کے انڈر کور آپریشنز کے طشت از بام ہونے کی وجہ سے اب آئی ایس آئی نے سی آئی اے سے پاکستان میں اسکے تمام اہلکاروںکی خفیہ سرگرمیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسکے تمام اہلکاروں اور کنٹریکٹروں اور انکی سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے اورسی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا کو باور کرایا کہ اب انکی ایجنسی کو پاکستان کی سرزمین پرکسی قسم کی خفیہ کاروائیوں کی اجازت نہیں دی جائےگیاس حوالے سے دونو ں ملکوں کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ کے لئے ایک نیا میکینزم وضع کرنے پر بھی اتفاق کیا گیاہے اور پاکستانی سیکیوریٹی اداروں کے اس رویوں میں یہ تبدیلی امریکہ اور خصوصا سی آئی کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اب اسکی دال اس ملک میں گلنا نا ممکن ہوگئی ہے او ر کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اسے ہزار بار سوچنا پڑیگا کیونکہ جب کوئی قوم خواب غفلت سے بیدار ہو جائے تو اسے شکست دینا ناممکن ہوجاتا ہے
کاش ہمارے حکمراں اور سیاستدان مکمل طور پر بیدار ہوجائیں اورارض وطن کے داخلی اور خارجی دفاع کو اسقدر مستحکم کردیں کہ دشمن کبھی مادر ملت کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرسکے آمین
ریمنڈڈیوس ،امریکا اور پاکستان
زمرے کے بغیر