روشنی سے مرگی کا علاج
امریکی سائنس دانوں نے مرگی اور پارکنسن کے مرض کی کیفیت میں دماغی ہیجان کو معمول پر لانے میں مدد کے لیے ایک نیا اور مؤثر طریقہ دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اس نئے طریقے کے تحت دماغ کے کلیدی حصوں میں موجود مخصوص پروٹینز کو لیزر شعاعوں کے ذریعے متحرک کیا جاتا ہے۔
میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے پھپھوندی اور بیکٹریا میں پائے جانے والے خلیوں سے سپر سائیلنسرز نامی مصنوعی اعصاب تیار کیے ہیں۔ آرک(اے آرکے) اور میک کے نام سے موسوم یہ خلیےروشنی کا اثر قبول کرنے والے پروٹین تیار کرتے ہیں جوروشنی کو توانائی میں تبدیل میں ان جراثیموں کو مدد دیتے ہیں۔
جب ان خلیوں کو دماغ میں داخل کیا جاتا ہے، تو وہ روشنی سے حساسیت رکھنے والے ایسے پروٹین تیار کرنے لگتے ہیں جو لیزر کی شعاعوں کا اثر قبول کرتے ہوئے دماغ کے ان مخصوص حصوں کے اعصابی خلیوں کو پرسکون بنانے میں مدد دیتے ہیں جو مرگی کی وجہ سے ہیجان میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ایڈبائیڈن، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے دماغ سے متعلق علوم کے شعبے میں پروفیسر ہیں۔ ان کی تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ مخصوص خلیے رکھنے والے اعصاب لیزر کی لہروں سے کس طرح متحرک ہوتے ہیں اور کس طرح اپنا کام روک دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ایک خاص وقت کے لیے روشنی کی ایک مخصوص مقدار کے ذریعے معمول کے مطابق کام نہ کرنے والے دماغی اعصاب کو اپنے کام سے روک سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری دواؤں کی نسبت اس طریقہ کار کے مضر اثرات بہت معمولی ہیں۔
بائیڈن کہتے ہیں کہ لیزر کی روشنی جینیاتی طریقے سے تبدیل شدہ دماغی خلیوں کو متحرک کرتی ہے، اعصاب میں برقی بہاؤ کی قوت کم کرتی ہے اور انہیں اس عمل سے روکتی ہے جو نارمل نہیں ہوتا۔
سائنس دان اب اعصابی ردعمل کا ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کررہے ہیں جومرگی کے دورے کے باعث دماغ کے خلیوں کےغیر معمولی ہیجان میں مبتلا ہونے کے وقت حرکت میں آسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر ہم جن چیزوں پر کام کر رہے ہیں ان میں سے ایک الیکٹروڈ کے ذریعے دماغی کیفیات کا پتا لگانا ہے اور اس کے بعد صحیح وقت پر روشنی کی ایک مخصوص مقدار کے ذریعے دماغی بیماری کی صورت میں اسے کام سے روکنا ہے۔
بائیڈن کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ممکن ہے کہ ماہرین نئے آلات کی مدد سے مختلف رنگوں کی روشنیوں کے مصنوعی اعصاب پرظاہر ہونے والے ردعمل کی مدد سے دماغی اعصاب کے پیچیدہ نظاموں شناخت اورمرض کے حوالے سے اس کی درستگی کی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔
وہ کہتے ہیں مثال کے طورپر تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پیلے رنگ کی روشنی آرک نامی خلیوں کو پرسکون کرنے میں مدد دیتی ہے جب کہ میک نامی مصنوعی خلیے نیلے رنگ کی روشنی کا اثر قبول کرتے ہیں۔بائیڈن کہتے ہیں کہ ہم اس حوالے سے کئی اور جانداروں پربھی تحقیق کررہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات اور طبی نقطہٴ نظر سے اسے زیادہ بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔
بائیڈن کی ٹیم نےروشنی کا اثر قبول کرنے والے پروٹینز کے ذریعے دماغی اعصاب کو پرسکون بنانے پر اپنی تحقیق کا آغاز جانوروں سے کیا تھا۔ روشنی کے ذریعے بیماری میں مبتلا انسانی دماغ کے علاج میں ابھی کئی منزلیں باقی ہیں۔ بائیڈن کہتے ہیں کہ کئی دوسرے ماہرین نئی اور بہتر ادویات کی تیاری کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کررہے ہیں۔
ایڈ بائیڈن اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
بشکریہ VOA