عبدالجلیل منشی ۔ کویت
جمعہ یکم اپریل ۱۱۰۲ءکو ساوتھ ویسٹ ایرالائنز کاپندرہ سال پرانا بوئنگ ۷۳۷طیارہ ۸۱۱ مسافروں کولے کر امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فوئنکس سے کیلیفورنیا کے شہر سیکرامینٹو کے لئے روانہ ہوا طیارہ ایریزونا کے صحراءکے اوپر ۰۰۰۴۳ (چونتیس ہزار )فٹ کی بلند ی پر محو پروازتھا اور مسافر اطمئنان کے ساتھ سفرسے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک مسافر کیبن کی چھت کا ۵ فٹ کا ٹکڑا ایک دھماکے سے طیارے سے الگ ہو کر فضامیں بکھر گیااور جہاز میں بیٹھے ہوئے مسافروں کوچھت کے سوراخ سے آسمان صاف نظر آنے لگا
دھماکے سے جہاز میں بیٹھے ہوئے بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین میں شدیدخوف وہراس پیدا ہوگیا اور چیخ و پکار سے سارا جہاز گونجنے لگا
چھت میں سوراخ ہونے کی وجہ سے جہاز میں آکسیجن کی کمی واقع ہوگئی جس کی وجہ سے مسافروں کو آکسیجن ماسک کا سہارالینا پڑا جہاز کے ویکیوم کا نظام درہم برہم ہونے کے باعث توازن میں خلل واقع ہوگیا اور مسافروں کے سر بری طرح سیٹوں سے ٹکرانے لگے
ہموار پرواز کے دوران اچانک رونما ہونے والے اس حادثے نے جہاں مسافروں میں خوف اور دہشت کی ایک لہر دوڑادی وہیں کاک پٹ میں پائلٹ ، کوپائلٹ اور فلائٹ انجینئر بھی شدید ذہنی جھٹکے سے دوچار ہوئے جہاز کا توازن تیزے سے بگڑ رہا تھا اور کاک پٹ میں موجود عملے کو معاملے کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہورہا تھا مگر جلد ہی یہ بات ان پر آشکارہ ہوگئی کہ مسا فر کیبن کی چھت کا ایک بڑا ٹکڑا دھماکے سے الگ ہوگیا ہےپائلٹ نے اپنے حواسوں کو قابو میں رکھا اور انتہائی تیزی کے ساتھ صرف چار منٹوں میں جہاز کو ۰۰۰۴۳(چونتیس ہزار) فٹ کی بلندی سے ۰۰۰۱۱ (گیارہ ہزار)فٹ کی بلندی پر لے آیا اتنی تیزی کے ساتھ جہاز کو غوطہ لگانے سے مسافروں کا توازن بھی بگڑا اور کچھ مسافر جہاز کی سیٹوں سے ٹکرا کر زخمی بھی ہوئےپائلٹ نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے تباہی سے دوچار ہوتے جہاز کو سنبھالا اور فوئنکس سے ۰۵۱ میل دور جنوب مغرب میں واقع یوما ملٹری بیس کے ہوائی اڈے پرکامیاب ایمرجنسی لینڈنگ کی جس کے نتیجے میں جہاز ایک خوفناک تباہی سے بچ گیااور مسافر اور جہاز کے عملے کے افراد میں سے کوئی بھی ہلاک یا شدید زخمی نہیں ہوا
یہ تو اللہ کے فضل وکرم اور جہاز کے پائلٹ کی حکمت کے باعث جہاز تباہی سے دوچار ہونے سے بچ گیا مگر اس حادثے کے نتیجے میں دنیا بھر میں زیر استعمال پرانے ماڈل کے ۷۳۷ بوئنگ طیاروںکی سیفٹی پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جہاز کی چھت میں موجود المونیم کی تہہ میں بہت ہی باریک اور نظر نہ آنے والی دراڑاس حادثے کا سبب بنی تھی اور اس انکشاف نے اس طراز کے بوئنگ جہاز استعمال کرنے والی فضائی کمپنیوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ہے
جاپان،انڈونیشیا،جنوبی کوریا اور دیگر حکومتوں نے اپنی ائرلائنز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے فضائی بیڑے میں شامل ۷۳۷ بوئنگ جہازوںکا سختی سے معائنہ کروائیں اسکینڈی نیوین ائرلائنز(ایس اے ایس) نے بھی اپنے بیڑے میں شامل اس طراز کے طیاروں کی سخت جانچ پڑتال شروع کردی ہے جبکہ آسٹریلیا کی قنتاس ائرلائن نے اپنے چاراور نیوزیلینڈ نے اپنے تمام پندرہ ۷۳۷بوئنگ طیاروںکی چیکنگ کے احکامات صادر کردئے ہیں
امریکہ کی ساو¿تھ ویسٹ اور کونٹی نینٹل ائرلائنز کا فضائی بیڑازیادہ تر بوئنگ ۷۳۷ سیریز کے جہازوں پر مشتمل ہے جو کہ اس قسم کے حادثات کا ممکنہ شکار ہوسکتے ہیںمگر بوئنگ سیریز کے زیادہ تر جہاز روس کی یو ٹی ائیر،انڈونیشیا کی گارودا،ائر نیوزیلینڈ، رومانیا کی ائیر لائنزاور چین کی تین بڑی فضائی کمپنیوں کی ملکیت ہیں الاسکا ائیر کے پاس سترہ ۷۳۷ جہاز ہیںاسکے علاوتھائی لینڈ کے شہزادے کے پاس ایک جہاز ہے جبکہ پیرو اور چلی کے صدر صاحبان کی دسترس میں بھی ایک ایک بوئیگ ۷۳۷ جہاز ہے چین کی ائیر فورس بھی بیشتر ۷۳۷ جہازوں پر ہی انحصار کرتی ہے
ساوتھ ویسٹ ائرلائن نے حادثے کے بعد اپنے بیڑے میں موجود ۷۳۷ جہازوں کے معائنے ک کام مکمل کر لیا ہے جس کے نتیجے میں پانچ جہازوں کے مسافر کیبنوں کی چھتوں میں واقع جوڑوں میں میںباریک کریکس کا انکشاف ہوا ہے جس کے باعث یکم اپریل کوحادثہ رونما ہوا تھااور ان کریکس کی بوئنگ کمپنی کی معاونت سے مرمت کر لی گئی ہےجبکہ الاسکا ائرلائنزنے آیندہ چند ہفتوں میں فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے )کے احکامات کی تعمیل میں ان تمام جہازوں کی لازمی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے جو تیس ہزار ٹیک آف اور لینڈنگ مکمل کرچکے ہیں
ایوی ایشن ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سول ایوی ایشن ادارو ں کے مابین قائم معاہدے کی روشنی میں ایف اے اے کی ہدایات کا اطلاق دنیا بھر میںموجود ۷۳۷ بوئنگ جہازوںپر ہوگا ایف اے اے کے احکامات کی روشنی میں کئی غیر حکومتوں نے اپنی ائرلائنوں کو۷۳۷ جہازوں کی ضروری جانچ پڑتال کے احکامات جاری کر دئے ہیں
قریبا دو ہفتے قبل ایف اے اے کے منتظم رینڈی بابٹ نے فضائی امور سے متعلق نئے حفاظتی قوانین وضع کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایجنسی اس بات کو جاننے کی ضرورت محسوس کر رہی ہے کہ حادثے کا سبب بننے والے کریکس کا بروقت پتہ کیوں نہیں لگایا جا سکا تھاجسکی وجہ سے ایک بڑا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا جبکہ اس حادثے کے تناظر میں ہوابازی کے شعبوں سے وابستہ مشیر بھی سخت تشویش کا شکار ہیں
اس ضمن میں فوریسٹر ریسرچ انکورپوریٹڈ کے ہوابازی کے امورکے تجزیہ کار ہنری ھارٹ ایویلڈٹ کا کہنا ہے کہ کچھ فضائی کمپنیاں اپنے بیڑے میں موجود جہازوں کی بین الاقوامی ہوابازی کے مطلوبہ حفاظتی معیار کے مطابق دیکھ بھال نہیںکرتیں انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے اس قسم کی غیر ذمے داری کے مظاہرہ کا مشاہدہ اعلی معیار کی امریکی اور بین الاقوامی فضائی کمپنیوں کی صفوں میںکیا گیا ہے جبکہ کچھ ائیرلائنز جن میں بریٹش ائیر اور قنتاس ائیرشامل ہیں اپنے جہازوں کی دیکھ بھال انتہائی اعلی معیار کے مطابق کرتی ہیں
ایف اے اے کے ایک اعلامیہ کے مطابق وہ تمام جہاز جو تیس ہزار ٹیک آف اور لینڈنگ کی حد کو پہنچ چکے ہیںانکی مالکان فضائی کمپنیوں پر لازم ہے کو وہ انکاٹیکنیکل انسپکشن کروائیں اس سلسلے میں دنیا بھر میں موجود ۵۷۱ ایسے جہاز جو ایف اے اے کے مقرر کردہ معیار کے مطابق پہلے ہی اپنی ٹیک آف اور لینڈنگ کی حدپر پہنچ چکے ہیں انکا فوری معائنہ کروایا جائے گاجس میں اعلی پائے کی ٹکنالوجی اور انسانی صلاحیتوں کو بروئے کارلایا جائے گا
معائنہ کار انجینئر اس قسم چیکنگ کےلئے جن ہائی ٹیک آلات کا استعمال کرتے ہیں وہ ایسے مقناطیسی سگنل چھوڑتے ہیں جو جہاز کی ۰۵ فٹ طویل دوہری چھت کے جوڑوں کو سکین کرکے ان میں موجود نادیدہ اور انتہائی باریک دراڑوں کا پتہ لگاتے ہیں بوئنگ کمپنی نے نوے کی دہائی میں ۷۳۷جہازوں کی چھتوں میں موجود جوڑوںکونئے سرے سے ڈیزائنگ کی تھی جسکے بعد کمپنی کا خیال تھا کہ ائیر لائنز کو ساٹھ ہزار اڑانوں تک جہازوںکے تفصیلی معائنے کی ضرورت پیش نہیں آئےگی
مگر بوئنگ کمپنی کے ایک اعلی انجینئر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایسا سوچنا کمپنی کی سب سے بڑی غلطی تھی جبکہ کمپنی ساوتھ ویسٹ ائیر لائنر کے جہاز کے حادثے پر سخت حیرانی کا شکار ہے جو صرف پندرہ سال پرانا تھا اور جس نے اب تک چالیس ہزار سے بھی کم اڑانیں بھری تھیں
بوئنگ کمپنی کا پہلا جہاز ۸۶۹۱ میںتجارتی جہاز رانی میں داخل ہواتھا اور ابتک کمپنی نے ۲۵۷۶ (چھے ہزار سات سو پچیس) جہاز تیار کرکے مختلف بین الاقوامی فضائی کمپنیوں کے حوالے کردئے ہیںجن میں سے کچھ ابتدائی دنوں میں تیار کردہ پرانے ماڈل کے سگار کی شکل کے انجنوں والے جہاز تاحال زیر استعمال ہیں