چین اور بھارت اپنی معاشی ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کے لئے وسائل کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ اس جستجو کا دائرہ کار دنیا بھر میں پھیل رہا ہے جبکہ اس کوشش میں جیت کا تعلق دو بندرگاہوں سے جوڑا جا رہا ہے۔
چین اور بھارت کی تیز رفتار معیشت کا پہیہ گھومتا رہے، اس کے لیے انہیں وسیع تر وسائل درکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طاقتور ترین اقتصادی طاقت کا اعزاز حاصل کرنے کی دوڑ انہی دو ملکوں کے درمیان جاری ہے۔ اب اس دوڑ میں جیت کس کی ہوتی ہے، اس کا تعلق ایران اور پاکستان کی دو بندرگاہوں سے ہے۔
بھارت ایران کی جنوب مغربی بندرگاہ چابہار کے ذریعے وسطی ایشیا اور افغانستان تک رسائی حاصل کرنے کی امید کر رہا ہے۔ یہ بندرگار پاکستان کے ڈیپ سی پورٹ گوادر سے محض 72 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
گوادر کی بندرگاہ چین نے اپنی توانائی کی ضروریات کو یقینی بنانے کے لیے بنائی ہے۔ یوں بھارت چابہار اور چین گوادر کے ذریعے افریقہ، لاطینی امریکہ اور افغانستان تک سے اقتصادی معاہدے کرنا چاہتا ہے۔
اس حوالے سے آسٹریلیا کے لووی انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی سلامتی امور کے ماہر روری میڈکاف نے خبررساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ’ان بندرگاہوں کے ذریعے چین اور بھارت اپنے مفادات کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں، تجارت اور بیرونی مارکیٹوں تک رسائی کے مواقع کو بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
دوسری طرف ان دونوں بندرگاہوں کو ڈیویلپ کرنے کے حوالے سے چین اور بھارت کو پاکستان اور ایران میں علاقائی سطح پر ناہموار صورت حال کا سامنا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی حکام یہ کہتے چلے آ رہے کہ وہ چابہار کی بندرگاہ پر اضافی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ایرانی حکام پر زور دیتے ر
یہ بندرگارہ فعال تو ہے لیکن اس کی گنجائش پچیس لاکھ ٹن سالانہ ہے جبکہ اس کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ ٹن سالانہ کا ہدف رکھا گیا ہے۔ بھارت امریکی دباؤ کے باوجود اس ایرانی بندرگار کا فروغ چاہتا ہے، جس کی وجہ چین کی جانب سے پاکستانی صوبہ بلوچستان میں بنائی گئی گوادر کی بندرگاہ ہے۔
بیجنگ حکام نے اس بندرگاہ کے لئے دو سو اڑتالیس ملین ڈالر کے ابتدائی ترقیاتی اخراجات کا اسیّ فیصد فراہم کیا۔ اس بندرگاہ کے ذریعے چین کو اپنی توانائی کی ضروریات کے لئے تیل کی سپلائی حاصل کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔