جرمن دارالحکومت برلن کی ایک یونیورسٹی میں ماہرین کا ایک گروپ ایک ایسی گاڑی تیار کرنے کی جستجو میں مگن ہے، جسے چلانے کے لیے ہاتھوں یا پیروں کا استعمال ہی نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ منصوبہ ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے۔ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ کس طرح محض ذہنی طاقت سے گاڑی کی رفتار اور رخ کا تعین کیا جائے۔ برلن کے سابق ٹیمپل ہوف ہوائی اڈے پر اس تجربے کا مظاہرہ کیا گیا۔
برلن فری یونیورسٹی کے مطابق ان کے ایک سائنسدان نے اپنے سر پر کمپیوٹر سے جُڑا ایک ایسا آلہ پہن رکھا تھا، جو اُس کے ذہن میں پیدا ہوانے والے خیالات کو برقی احکامات میں تبدیل کر رہا تھا۔ اِنہی برقی احکامات کی مدد سے اس سائنسدان نے گاڑی کو چلانے، روکنے اور سٹیئرنگ کنٹرول کرنے کا مظاہرہ کیا۔
ویسے تو مختلف ممالک میں ایک طویل عرصے سے سائنسدان اِس جستجو میں ہیں کہ کس طرح انسانی ذہن اور کمپیوٹر کا مضبوط باہمی تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ذہن سے چلنے والی گاڑی کا تجربہ بھی کوئی نئی کوشش نہیں ہے۔ برلن کی فری یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق ان کے حالیہ تجربے میں جدت یہ ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ذہنی خیالات پڑھنے والے سینسر انسانی جلد سے منسلک کیے گئے تھے۔
حالیہ تجربے میں ذہن سے گاڑی چلانے والا ڈرائیور ایک ایسے مکعب نما کے بارے میں سوچتا رہا، جو مختلف سمتوں میں حرکت کرتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس مکعب نما کی چار مختلف سمتوں میں حرکت کو گاڑی کے چار مختلف افعال سے جوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر بریک، ایکسیلیریٹر، دائیں مڑنا اور بائیں مڑنا۔
اسی بنیاد پر وہ اس ڈرائیور کے خیال کو احکامات میں بدل کر گاڑی چلانے کا عملی مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے۔ برلن کے یہ آئی ٹی ماہرین انسانی آنکھ اور موبائل فون کے ذریعے بھی گاڑی کو کنڑول کرنے کا کامیاب مظاہرہ کر چکے ہیں۔
برلن کے سائنسدان اپنے اس تجربے سے جو معلومات حاصل کریں گے، وہ ایسے اپاہج افراد کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہو سکتی ہیں، جو چل پھر نہیں سکتے۔ برلن کے سائنسدانوں نے واضح کیا ہے کہ یہ منصوبہ فی الحال اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس سے بہت جلد کسی بڑی تبدیلی کی امیدیں وابستہ نہیں کی جانی چاہیں۔
اس نظریے کے پیچھے کارفرما تکنیک خاصی پیچیدہ ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ویسے تو دماغی لہروں کو آسانی سے ایسے سینسر وصول کر لیتے ہیں، جو سر کی جلد سے منسلک کیے جاتے ہیں تاہم اصل امتحان یہ ہے کہ ذہن میں ابھرنے والے مختلف خیالات اور حقیقی احکامات میں فرق واضح کیا جائے۔ بہت سے ماہرین یہ کوشش کر چکے ہیں مگر تاحال کسی کو خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی