امريکہ ميں مسخ شدہ چہرے کی مکمل تبديلی


امريکی رياست ٹيکساس ميں بوسٹن کے بریگھم اينڈ ویمنز ہسپتال نے اعلان کيا ہے کہ ٹيکساس کے ايک 25 سالہ نوجوان کے چہرے کو سرجری کے ذريعے مکمل طور پر تبديل کر ديا گيا ہے۔

 

30سے زائد ڈاکٹروں، نرسوں، جسم کو سُن کرنے کی دوا دينے والے ڈاکٹروں اور عملے کے دوسرے افراد نے 15 گھنٹے سے بھی زيادہ دير تک جاری رہنے والے اِس آپريشن ميں ڈیلاس وينز کی ناک، چہرے کی جلد، جلد کے نيچے کے عضلات،ہونٹوں اور اعصابی ريشوں کو تبديل کرنے کے آپريشن ميں حصہ ليا۔ وينز کا چہرہ سن 2008 ميں ہونے والے بجلی کے ايک حادثے ميں مسخ ہو گيا تھا۔

بریگھم اينڈ ویمينز ہسپتال کی سربراہ بيسٹی نيبل نے کہا:’’پيوند کاری کی پوری ٹيم يہ آپريشن صرف اس وجہ سے کر سکی ہے کہ ايک فرد نے کسی اور کے لیے کیے جانے والے سب سے بے غرض انسانی کام کے طور پر اپنے چہرے کے اجزاء کا عطیہ دیا۔‘‘

ہسپتال نے عطيہ دينے والے شخص کے نام کا اعلان نہيں کيا۔

وينز نے ايک ہائی وولٹيج برقی تار کو چھو ليا تھا، جس سے اس کے چہرے کے تقريباً تمام خدوخال جل گئے تھے۔ اُس کا آپريشن پچھلے ہفتے کيا گيا۔ ڈاکٹروں نے بتايا کہ وينز ابھی تک ہسپتال ہی ميں ہے ليکن وہ پوری طرح ہوش ميں آ چکا ہے اورچل پھر رہا ہے۔ اس نے فون پر اپنے گھر والوں سے بھی گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی کھا پی بھی سکے گا۔

سرجنوں کا کہنا ہے کہ وينز اپنے دائیں جانب کے ماتھے اور گال ميں حساسيت کو بڑی حد تک دوبارہ حاصل کر لے گا ليکن بائيں گال اور ماتھے کے بائيں حصے کی حساسيت کم ہی رہے گی کيونکہ اسے بہت زيادہ نقصان پہنچا ہے۔

وينز کے دادا ڈيل پيٹرسن نے کہا:’’وہ صحتمند ہو جانے اور ايک بھر پور زندگی گذارنے کی امنگ رکھتا ہے۔‘‘

سرجن وينز کی بينائی بحال کرنے ميں کامياب نہيں ہوئے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ وينز کا چہرہ مکمل طور پر عطيہ دينے والے شخص کے چہرے کی طرح دکھائی نہيں دے گا ليکن اس کا نيا چہرہ خود اس کے اپنے سابقہ چہرے سے بھی ملتا جلتا نہيں ہوگا۔

امريکہ ميں چہرے کی پہلی جزوی پيوند کاری دسمبر سن 2008 ميں کليولينڈ کلينک ميں کی گئی تھی۔ دنيا ميں چہرے کی جزوی پيوندکاری کا پہلا کامياب آپريشن سن 2005  ميں فرانس ميں ہوا تھا۔ چہرے کی مکمل پيوند کاری کا پہلا آپريشن سن 2010 ميں فرانس ميں کيا گيا تھا۔

زمرے کے بغیر
Comments (0)
Add Comment