آٹے بحران سے گزری قوم کے لئے خُوشخبری

آٹے بحران سے گزری قوم کے لئے خُوشخبری
اَب کی بار……خداکرے ملک کو گندم کی پیداواری ہدف حاصل ہوجائے….
محمداعظم عظیم اعظم
ہمارے ملک میںگزشتہ سے پیوستہ سالوں سے حکمران طبقے نے دانستہ طور پر گندم اور آٹے کا مصنوعی بحران جس طرح پیداکیاتھا اِسے دیکھ کر یہ ا ندازہ ہوتاتھا کہ اگر اِسے خُود حکمرانوں نے کنٹرول نہ کیاتو ممکن ہے کہ کہیں یہ آٹے کا مصنوعی بحران آہستہ آہستہ کسی حقیقی بحران کا رنگ نہ بھرلے اور ملک میںایسے اِنقلابی حالات پیداکردیئے جائیں جو حکمرانوں کے کنٹرول سے بھی باہر ہوجائیں مگر شائد حکمرانوں کو اِس بات کا احساس جب ہواتو اُنہوں نے پھر خود ہی ملک سے گندم اور آٹے کے مصنوعی بحران کے خاتمے کا حل نکال لیااور اِس کے بعد اِنہوں نے چینی کا ایسا خودساختہ بحران پیداکردیا کہ اِس کے بعد یہ اپنے اُس مِشن سے ایک قدم بھی پیچھے کو نہیں ہٹے کہ جس کی وجہ سے ملک سے چینی کا بحران ختم ہوتااور شائد یہی بحرانی کیفیت ہی ہے کہ آج ملک میں چینی کی قیمت آسمان کی بلندترین سطح پر پہنچ کر ملک کے غریب عوام کو منہ چِڑھارہی ہے ۔
بہرکیف !میراآج کا موضوع آٹا اور اِس کا ماضی میں آنے والا وہ مصنوعی بحران ہے جس نے عوام کو کسی خاص سمت میں)ملک میںاِنقلاب جیسی) تبدیلی کے لئے اُکساناتو ضرور چاہا مگر شائد ہمارے حکمرانوں کی طر ح ہمارے عوام میںبھی مصالحت پسندی کے جرثومے پیداہوگئے ہیں وہ اُس وقت کسی اِنقلاب کے لئے تو نہیں نکلی اور ایک مصالحت پسندانہ خاموشی اپنائے وہ تمام حکومتی مظالم سہتی رہی جتنایہ برداشت کرسکتی تھی۔
مگرآج اگر ہم پچھلے سالوں کا جائزہ لیں تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ سالوں میں ہمارے ملک میں گندم اور آٹے کا جومصنوعی بحران پیداکیاگیاتھااِس میںایک ایسی حکومتی سازش بھی شامل تھی جس کے تحت حکمران طبقہ عوام کا صَبر کا پیمانہ جانچنا چاہتے تھے اور جب یہ عوامی درعمل اور صَبروبرداشت کو پرکھ چکے تو پھر اِس نے ملک میں دیگر دوسرے بحرانوں کا منصوبہ بنایاآج جس میں چینی اور توانائی کے بحران سرِ فہرست ہیں ….اوراَب مختصر یہ کہ آٹے کے مصنوعی بحران سے گزری پاکستانی قوم کے لئے ایک خُوشخبری یہ ہے کہ زرعی ماہرین نے اپنے اپنے سینے ٹھونک کر یہ کہاہے کہ رواں سال پاکستان میں بروقت بارشوں سے گندم کی فضل پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں ہمیںجس سے گندم کا مقرر کردہ ہدف حاصل ہوجائے گااور اِب اِن کے مطابق آٹا فی کلو زائد قیمت کے عوض وصول کرنے والی پاکستانی قوم کو اُمید کرلینی چاہئے کہ حکومت کو سال 2010-11میں ربیع سیزن کے لئے 90لاکھ 45ہزارایکٹر اراضی پر گندم کی کاشت سے 2کروڑ50لاکھ ٹن گندم کی پیداوارکا ہدف بڑی آسانی سے حاصل ہوجائے گا جس کے بعدقوم کو اپنے ہی ملک میں پیداہونے والی معیاری گندم سے اچھااور سستاآٹا مہیاہوسکے گا۔ مجھ سمیت ساری پاکستانی قوم کی بس یہ ایک دُعاہے کہ اَب کی بار خداکرے ہمارے ملک کو اپنے ہی ملک میں پیداہونے والی گندم کی پیداواری ہدف حاصل ہوجائے اور ہم کو گندم اور آٹاواقعی معیاری اور سستے داموں ملنے لگے اِس موقع پر مجھے یہ شعر دیاآرہاہے جس میں شاعر نے کہاہے کہ:-
اپنے ویرانوں میں بھی بادِ بہار آجائے    اے خُدا اپنے مقدر کا بھی غنچہ کِھل جائے
عیداُس کی ہے ،خُوشی اُس کی ہے، روزے اُس کے    اِس بُرے دور میں جس شخص کو روزی مِل جائے
اور اِس کے علاوہ ہمارے زرعی ماہرین نے قوم کو اِس بات کا بھی یقین ایک جامع اور مُفصل رپورٹ کی روشنی میں دلاتے ہوئے کہاہے کہ پنجاب میںایک کروڑ92لاکھ ٹن،سندھ میں36لاکھ 82ہزارٹن،لیبرپختونخواہ میں12لاکھ10ہزارٹن اور بلوچستان میں 9لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف ر کھاہواہے اور یہ امرزرعات کے شعبے سے وابستہ افراد سمیت ساری پاکستانی قوم کے لئے بھی اِنتہائی حُوصلہ افزاءہے کہ پاکستان کے پاس اِس وقت 4.3ملین ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیںاور اِس کے ساتھ ہی ہمارے ماہرین زراعات نے یہ اُمید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارچ کا مہینہ گندم کی فصل کے لئے اِنتہائی اہم ترین مہینہ قرار پاتاہے اِس لئے کہ اِس ماہ کے دوران درجہ حرارت30ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوزنہ کرے تو گندم
کی پیداوار اچھی ہوتی ہے اور رواں ماہ گزشتہ سال کی نسبت گندم کی پیداوار کے لئے درجہ حرارت قدرے کم ہے جو ہمارے ملک میں گندم کی پیداور کے لئے بہت اچھی نشانی ہے اُنہوں
نے اِس موقع پر گزشتہ سال کا موازانہ کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا کہ پچھلے سال ریبع سیزن میں گندم کی پیداوار حکومتی مقرر کردہ ہد ف سے یوں کم رہی کہ اُس سال ملک میں بارشیں بروقت نہیں ہوئیں تھیں اور مارچ 2010میںگرمی کی شدت میںہونے والا اضافہ اور آبپاشی کے لئے دستیاب پانی میں کمی تھی جس کی وجہ سے گزشتہ سال ہمیں گندم کا مقرر کردہ ہدف حاصل نہ ہوسکاتھا جِسے پوراکرنے کے لئے حکومت نے بیرونِ ممالک سے گندم منگواکر اپنی ضرورتوں کو پوراکیامگر اِس سال نہ صرف حکومت کو ہی نہیں بلکہ زرعات کے شعبوں سے وابستہ افراد اور عوام کو بھی یہ اُمید ضرورکرنی چاہئے کہ ہمارے ملک میں مقررہ کردہ ہدف کے مطابق گندم کی پیداوار حاصل ہوجائے گی اور جس سے ملک سے گندم اور آٹے کامصنوعی بحران حکمران پیدانہیں کرپائیں گے۔
اِس موقع پر میرایہ کہناہے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی وہ قوم ہیں جس کا تعلق ایک زرعی ملک سے ہے اور ایک ایسا زرعی ملک جس میں پیداہونے والے اجناس نہ صرف اپنے ہی ملک کی ضرورتوں کو پوراکرتے ہیں بلکہ عالمی منڈی میں بھی اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں مگر کیاوجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے بدقسمتی سے اِس زرعی ملک کے باسیوں کو آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی شے کے بحرانوں سے کچھ اِس طرح سے گزرناپڑا ہے قوم گندم کے ایک ایک دانے کو ترس گئی اور قوم میں ایک ایسی انقلابی کیفیت پیداہوگئی تھی ۔جو بعد میں ہمارے شاطر حکمرانوں کے سیاسی بیانات اور معمولی نوعیت کے چند ایک اقدامات کے بعد تُرنت ختم ہوگئی گو کہ اِس دوران ہمارے ملک کاہر ایک فرد خواہ وہ امیر ہو کہ غریب آٹے کے حصول کے لئے ایساپریشان نظر آیاکہ وہ اُن دنوں نفسیاتی مریض بن کررہ گیاتھا جو دولت مند تھے اُنہوںنے توآٹے کی زائد قیمت دے کربھی اِسے وصول کرلیاتھااور جواِس قابل نہ تھااُسے بھی آٹاتوملا ….. مگر آٹے کی ایک دس کلو کی بوری کے لئے اُسے صُبح سے دوپہر اور شام تک گھنٹوں گھنٹوں دھوپ ، بارش،سردی اور گرمی میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے اور ڈنڈے کھانے پڑے اور اِس خُونی کیفیت سے گزرنے کے بعد جوخُوش قسمتی سے زندہ بچا تب کہیں جاکراُس کے ہاتھ میں آٹے کی صرف ایک بوری آئی اور جِسے بھاگ دوڑ کے رَن کے بعد آٹا ملا…اَب اِس کی حفاظت کا مسلہ بھی اِسے درپیش رہا وہ اِسے(میدانِ رَن سے) اپنے گھر تک ایسے چھپاکر لاتاکہ کوئی اِس سے زبردستی چھین نہ لے اِس طرح وہ آٹالے کر بھی اپنے ہی گھر میں روٹی ڈر….ڈر کر کھاتارہا یعنی اِسے وہ آزادی بھی حاصل نہ تھی جو دنیا کے کسی بھی آزاد ملک کے کسی بھی آزادی شہری کو اپنے ملک ، اپنے شہر، اپنے محلے اور اپنے گھر میں حاصل ہوتی ہے اِس طرح وہ آزادی سے ٹھیک طرح سے روٹی بھی نہ کھاسکا ۔یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ آج ملک کے طولُ ارض سے اِنقلاب ….اِنقلاب کی صدائیں بلند ہورہی ہیں کیا واقعی ملک میں کسی اِنقلاب کے لئے سیاسی جماعتوں اور عوام نے اپنااپنا ہوم ورک مکمل کرلیاہے یا خیالی پلاو ¿ کی طرح اِنقلاب …اِنقلاب کا ڈھول پیٹاجارہاہے۔
کیوںکہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں آٹے جیسی اشیائے ضرورت کے بحران کے باوجود بھی جب ہماری قوم میں انقلاب کی کوئی تحریک پیدانہ ہوسکی تو پھر اَب اِس سے زیادہ اور کیا کوئی ایسی بدترین صُورتِ حال سے ہمار املک اور قوم دوچار ہوگی جس کی وجہ سے ہم یہ یقین کرلیں کہ اِس سے ہماری قوم میں کوئی انقلابی کیفیت بیدار ہوگی ۔اور ہمارے ملک میں کوئی اِنقلاب کسی بھی صُوبے سے نمودار ہوکر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میںلے لےگا اور ہم چیخ اُٹھیں گے کہ آہ ….آہ ! ہمارے ملک میں بھی کسی مثبت تبدیلی کے خاطر اِنقلاب آگیاہے۔



زمرے کے بغیر
Comments (0)
Add Comment