بریسٹ کینسر سے بچاؤ کے لیے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے

بریسٹ کینسر سے بچاؤ کے لیے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے

ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان میں ہر سال بہت سی خواتین اس موذی مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں جانتی کہ انہیں کیا بیماری لاحق ہوئی ہے۔ اسکی ایک وجہ جہاں طبی سہولتوں کی کمی یاان کا بے حد مہنگا ہونا ہے، وہیں معاشرتی رویے بھی ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت سی خواتین بریسٹ کینسر کے ہاتھوں موت کی وادی میں چلی جاتی ہیں۔ ریاست ٹیکساس کے ایک پاکستانی ڈاکٹر ذی شان شاہ کا شمار امریکہ کے ان چوٹی کے ڈاکٹروں میں کیا جاتا ہے جو اس مرض کے علاج میں مہارت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ذیشان علی شاہ امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک کامیاب کینسر سرجن ہیں۔ اسپتال میں سارا دن مریضوں کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ گھر میں مختلف سرگرمیوں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں کتابیں پڑھنے اور موسیقی سننے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ وہ ویڈیو گیمز بھی کھیلتے ہیں۔ یوں اسپتال میں سنجیدہگی اور پورے انہماک سے کام کرنے والے ڈاکٹر ذیشان گھر میں بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ میوزک میں ہر قسم کا سنتا ہوں۔ یہاں پر پیدا ہوا ہوں تو امریکن روک اینڈ رول میوزک تو بہت پسند ہے تو میرے پاس اس کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور میں یہی کرتا ہوں کہ میوزک اکھٹا کرتا ہوں پاکستانی میوزک کا بھی بہت شوق ہے جو آجکل نئے بینڈز ہیں پاکستان میں جیسا کہ کال، میکال حسن بینڈ وہ سب بھی بہت متاثر کرنے والے بینڈ ہیں۔ میں ان کو بھی سنتا ہوں اور پھر مجھے قوالیوں کا بھی بہت شوق ہے اور میرے پسندیدہ قوال ہیں راحت فتح علی خان۔ پھر ہم نے ایک مہینے پہلے راحت فتح علی خان کا بھی شو دیکھا تھا بہت ہی مزے کا شو تھا۔
انکی اہلیہ مونابھی ڈاکٹر ہیں اور ہارورڈ یونیورسٹی سے نیورو سرجری کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذیشان ایک اچھے شوہر اور بہترین دوست کی طرح ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ذیشان جو ہیں وہ ایک بہت ہی اچھے شوہر ہیں بہت کوآپریٹیو شوہر ہیں اور نہ صرف ایک اچھے شوہر ہیں بلکہ ایک بہت ہی اچھے انسان بھی ہیں۔
گھر میں یکسر مختلف دکھائی دینے والے ڈاکٹر ذیشان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کا طب کی دنیا سے تعلق ہے۔ وہ امریکہ میں بریسٹ کینسر سے متاثرہ خواتین کی جان بچانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ خواتین کو کینسر سے بچنےکے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں پہ امریکہ اور مغربی دنیا میں اس پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے کہ چالیس سال کی عمر کے بعد ہر عورت کو سکریننگ کرنی چاہیے۔ ہر عورت کو ہر سال اپنی میموگرافی کرانا چاہیے۔ پھر اس کے بعد اگر کوئی پرابلم ہوتی ہے۔ پھراس کی تشخیص کے لیے بریسٹ سینٹر پر آتے ہیں اور پھر ہم مریضوں کو دیکھتے ہیں۔ انکی میموگرافی کی جاتی ہےمعائنہ کیا جاتا ہے۔ الٹرا ساؤنڈ ہوتا ہے۔ پھر اگر کوئی غیر معمولی بات ہوتی ہے تو پھر ہم تشخیص کی طرف بھی جاتے ہیں اور biopsies بھی کرتے ہیں needle guided biopsies کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ذیشان کا کہنا ہے کہ عورتوں کو چالیس سال کی عمر کے بعد باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا چیک اپ کرانا چاہیے۔ اسی صورت وہ کینسر سے بچاؤ کو ممکن بنا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر ذیشان کے مطابق پاکستان میں ہر سال بہت سی خواتین اس موذی مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں جانتی کہ انہیں کیا بیماری لاحق ہوئی ہے۔ اسکی ایک وجہ جہاں طبی سہولتوں کی کمی یاان کا بے حد مہنگا ہونا ہے، وہیں معاشرتی رویے بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ یہی ہے کہ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ جو پروگرام یہاں پر بنایا گیا ہے وہ اسی لیے بن سکتا ہے کیونکہ یہاں پر انشورنس کمپنیاں ہیں اور اس کے لیے حکومت بھی سرمایہ فراہم کرتی ہے۔ حکومت سبسٹڈی بھی دیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کچھ بھی نہ کر سکتے۔ پاکستان میں یہی مسئلہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے۔ سوسائٹی کے پاس بھی اتنا پیسہ نہیں ہےکہ وہ اس پر خرچ کرسکیں۔ پاکستان میں strategy development ہونا چاہیے۔ پاکستان میں یہ ہونا چاہیے کہ ہر عورت کو کم از کم فزیکل ایگزام جو بریسٹ ایگزام خود سے کرانا چاہیے۔ تاکہ اگر کوئی مسئلہ ہے یا وہ کوئی چیز محسوس کریں اور وہ ڈاکٹر کے پاس جا سکتی ہیں۔ انہیں اس سلسلے میں آگاہی فراہم کرنے اور تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری عورتوں میں شرم بھی ہوتی ہے اور یہ خوف بھی کہ اگر میرے بریسٹ میں کچھ ہوتا ہے تو کیا ہوگا، شادی ٹوٹ جائے گی، وغیرہ اور بھی بہت معاشرتی مسئلے ہیں۔ اگر ان چیزوں پر قابو پالیا جائے تو بریسٹ کینسر کے واقعات میں کمی کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر ذیشان کے مطابق ان خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جن کی ماں یا خاندان میں سے کسی کو یہ مرض ہوچکا ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ جن عورتوں کی ماں کو یا ماں کے خاندان میں بریسٹ کینسر ہوتا ہے تو ان عورتوں کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے انہیں دوسری خواتین کی نسبت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ذی شان شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے درمیان بریسٹ کینسر کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا بہت ضروری اور وقت کا اہم ترین نقاضا ہے۔ تعلیم کے فروغ اور روایتی معاشرتی رویوں کو بدل کر ہی ہم اس بیماری کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں۔
بشکریہ VOA

بریسٹ
Comments (0)
Add Comment