URDUSKY || NETWORK

کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے سنسنی خیز فائنل کے بعد ایک نئی بحث میدان میں آ گئی ہے: ’آئی سی سی سے بہتر تو گلی کرکٹ کے قواعد ہیں‘

17

کرکٹ کا عالمی کپ تو اتوار کی شب لارڈز کے تاریخی میدان میں اختتام پزیر ہو گیا لیکن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے سنسنی خیز میچ سے ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔

یہ کیسی جیت ہے؟

دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے مد مقابل آئیں۔ امپائروں سمیت ہر کسی کو سکور بورڈ پر دونوں کا سکور بھی ایک ہی نظر آیا لیکن ایک نے ورلڈ کپ اٹھایا اور دوسری چپ چاپ چلی گئی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ شائقین کرکٹ آسٹریلیا سے لے کر افغانستان تک اور انڈیا سے لے کر جنوبی افریقہ تک یہی دو سوال پوچھتے نظر آرہے ہیں:

اوور تھرو کا قانون کیا ہے اور انگلینڈ کو چھ رنز ملنے چاہئیں تھے یا پانچ؟

اگر سپر اوور کے اختتام پر سکور برابر ہو تو ایک ٹیم کو دوسری پر کیسے فاتح قرار دیا جاسکتا ہے؟

آئی سی سی کا باؤنڈری کمیشن پھر کام دکھا گیا اور انگلینڈ کو سبقت دلا دی۔ لیکن قواعد تو قواعد ہوتے ہیں باؤنڈری فارمولا نیوزی لینڈ کی ناؤ بھی پار لگا سکتا تھا، اگر گپٹل نے بھی آرچر کو نیشام جیسا مزا چکھایا ہوتا تو۔۔۔

اوور تھرو کا قانون: تنازع کیا ہے؟

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب انگلینڈ کے بیٹسمین بین سٹوکس اور عادل رشید اپنے سپر اوور میں رن لینے کے لیے دوڑے اور نیوزی لینڈ کے فیلڈر مارٹن گپٹل کی تھرو پر دوسرا رن لیتے ہوئے بین اسٹوکس نے ڈائیو لگائی۔

گیند ان کے بلے سے لگ کر باؤنڈری پر چلی گئی اور امپائر نے چھ رنز دے دیے۔

اس وقت کسی نے اس بات کا احساس نہیں کیا کہ قانون کیا کہتا ہے اور کیا بین سٹوکس کے سکور میں چھ رنز ہی دینے چاہئیں تھے۔ لیکن بعد میں اس پر ایک بحث چھڑ گئی جس میں آسٹریلیا کے سابق امپائر سائمن ٹافل اور دیگر سابق کرکٹر بھی شامل ہوگئے۔

اپنے زمانے میں دنیا کے صفِ اول کے امپائر سمجھے جانے والے آسٹریلیا کے سائمن ٹافل کا کہنا ہے کہ امپائروں کمار دھرماسینا اور ایرازمس سے غلطی ہوئی ہے۔ ’انھیں انگلینڈ کو چھ نہیں بلکہ پانچ رنز دینے چاہئیں تھے اور غلطی فیلڈر کے تھرو کی ٹائمنگ کی ہے۔ اوور تھرو کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب فیلڈر گیند تھرو کرنا شروع کرتا ہے۔ امپائر کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ بیٹسمین کہاں ہیں؟‘

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر بازید خان کا بی بی سی کے عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس بارے میں امپائر غلطی پر تھے کیونکہ جب مارٹن گپٹل نے تھرو کی تھی اس وقت دونوں بیٹسمینوں نے دوسرے رن کے لیے ایک دوسرے کو کراس نہیں کیا تھا اور اس صورتحال میں امپائر کو چھ کے بجائے پانچ رنز دینے چاہئیں تھے۔

بازید خان نے بتایا کہ کرکٹ کے قوانین اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ وہی رن تسلیم کیا جاتا ہے جس میں بیٹسمینوں نے ایک دوسرے کو کراس کر لیا ہو۔

آئی سی سی کے قوانین میں اوور تھرو کی تعریف کافی مبہم الفاظ میں بیان کی گئی ہے

بازید خان کا کہنا ہے کہ جب قوانین کے بارے میں کوئی غیرمعمولی صورتحال سامنے آتی ہے اسی وقت قوانین کی کتاب کھول کر دیکھی جاتی ہے۔

بازید خان کی طرح راشد لطیف بھی یہی کہتے ہیں کہ جب تھرو ہو رہی ہو اور اگر بیٹسمین نے ایک دوسرے کو کراس نہیں کیا ہو تو وہ رن نہیں ہوگا اور فائنل میں جو کچھ ہوا وہ یہی تھا لیکن اس بارے میں کرکٹ قوانین میں یہ بات واضح طور پر موجود نہیں ہے۔

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ 2000ء میں ان کے ساتھ بھی تقریباً اسی طرح کی صورتحال ہوئی تھی کہ وہ بیٹنگ کررہے تھے کہ ایک تھرو ان کے بیٹ سے لگ کر باؤنڈری پر چلی گئی تھی اور امپائر نے چوکا دے دیا تھا کیونکہ وہ بیٹ دانستہ نہیں لگا تھا۔

راشد لطیف کہتے ہیں کہ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ بین سٹوکس نے دانستہ بیٹ نہیں لگایا جو چوکا ہوا، اگر ایسا ہوتا تو وہ یقینی طور پر آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ یعنی فیلڈ میں رخنہ اندازی پر آؤٹ دے دیے جاتے۔

سپر اوور: سکور برابر ہونے پر انگلینڈ کو کیوں فائدہ ہوا؟

ورلڈ کپ کے جو قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے تھے ان کے مطابق یہ بات پہلے سے طے تھی کہ اگر فائنل ٹائی ہوا تو اس کا فیصلہ سپر اوور کی بنیاد پر ہوگا ساتھ ہی یہ بات بھی پہلے ہی طے کی جا چکی تھی کہ سپر اوور بھی ٹائی ہونے کی صورت میں فاتح ٹیم کا فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کس ٹیم نے زیادہ باؤنڈریز لگائی ہیں۔

اس ورلڈ کپ میں رن ریٹ کے قانون پر بھی خاصی بحث ہوچکی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہ کرسکی ۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے گیارہ گیارہ پوائنٹس تھے لیکن رن ریٹ کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کی ٹیم نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا تھا۔

اگرچہ رن ریٹ کی بنیاد پر فیصلے کا طریقہ پہلے سے ورلڈ کپ کے قوانین میں موجود تھا لیکن شائقین اور بیشتر ماہرین کا یہ خیال تھا کہ چونکہ یہ ورلڈ کپ گروپ میچوں کی بجائے لیگ کی بنیاد پر تھا لہذا اس میں رن ریٹ کے بجائے فیصلہ ہیڈ ٹو ہیڈ نتیجے کی بنیاد پر ہونا چاہیے تھا کہ اگر دو ٹیموں کے پوائنٹس برابر ہیں تو یہ دیکھا جاتا کہ ان کے آپس کے میچ کا نتیجہ کیا تھا۔

سوشل میڈیا پر بحث

سوشل میڈیا پر تو اب یہ جیت ایک ایسا متنازع ٹرینڈ بن گیا جس میں آئی سی سی کے قواعد صارفین کے ہدف پر ہیں۔ ایک صارف مان سنگھ نے لکھا کہ ان قوانین سے تو گلی میں کھیلی جانے والی کرکٹ کے قوائد اچھے ہیں۔

سابق آسٹریلین کرکٹر بریٹ لی نے بھی ایسے شائقین کا حوصلہ بڑھایا جب انھوں نے بھی اپنے ایک پیغام سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے قواعد بدلنے پر زور دیا۔

کرکٹ کا ایک دیوانہ تو اپنی بات سمجھانے کے لیے سب کو ایک بار پھر سکول کے اس کمرہ امتحان میں لے گیا جہاں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ نامی دو طالبعلم کھڑے ممتحن سے بحث کر رہے ہیں کہ دونوں کے نمبر چار ہی ہیں۔ لیکن ممتحن کہتا ہے کہ انگلینڈ پاس ہوگیا ہے کیونکہ انگلینڈ نے چار نمبر کے سوال کا جواب دیا ہے جبکہ نیوزی لینڈ نے دو دو نمبر والے سوالات کے درست جوابات دے کر چار نمبر حاصل کیے ہیں۔

زیوا شاہ کے نام سے صارف نے لکھا ہے کہ فائنل میچ کے نتیجے نے تو کرکٹ کی سپرٹ تباہ کر کے رکھ دی ہے۔